راہل کے سامنے چیلنج بھی مواقع بھی

سماج میں تفریق، غلط فہمی اورنفرت جو آج دکھائی دیتی ہے، اتنی شاید تقسیم وطن کے زمانہ میں بھی نہ تھی، محض چار برسوں میں یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے جو کہ تمام اہل خرد کو دعوت فکر دے رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

کانگریس کی ایک سو تیس سال پرانی تاریخ میں پارٹی کے کسی صدرنے ایسے نا مساعد حالات میں پارٹی کی قیادت نہیں سنبھالی ہے جن حالات میں راہل گاندھی نے یہ بار گراں اٹھایا ہے پارٹی نہ صرف لوک سبھا میں اپنے سب سے کم ممبروں کے ساتھ ہے بلکہ ملک کی زیادہ تر ریاستوں میں بھی اقتدار سے باہر ہے اس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی چرمرایا ہوا ہے ۔کہا تو یہ تک جاتا ہے کہ عام انتخابات کے دوران اسے امیدوار تک دستیاب نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اسے بادل نا خواستہ ایسے امیدواروں کو میدان میں اتارنا پڑتا ہے جویا تو اپنی پرانی پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے کانگریس میں شامل ہوتے ہیں یا صرف سیاست کے میدان میں اپنی موجودگی درج کرانے کے لئے الیکشن لڑتے ہیں الزام تو یہاں تک لگتے ہیں کہ الیکشن لڑنے کے لئے انھیں جو مالی امداد ملتی ہے وہ رقم بھی ایسے امیدوار نہیں خرچ کرتے۔ان سب کے باوجود آج بھی کانگریس ایک ایسی وہ واحد پارٹی ہے جس کا نام لیوا ملک کے ہر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں مل جائیں گے اور یہی پارٹی کی اصل طاقت ہے راہل گاندھی کے سامنے ایسے ہی وفادار کانگرسیوں کو متحد کرکے ایک بڑی سیاسی طاقت بنانے کا چیلنج ہے۔

دہلی کے اندرا گاندھی انڈوراسٹیڈیم میں ہوئے پارٹی کے کھلے اجلاس میں پارٹی کے صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے خطاب میں راہل نے جب یہ اعلان کیا کہ انہو ں نےا سٹیج کو ایسے ہی کارکنان سے بھرنے کے لئے خالی رکھا ہے تو امید کی ایک کرن دکھائی دی کہ اب پارٹی میں زمینی سطح پر کام کرنے والوں کی قدر بڑھے گی۔ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ پارٹی کے بڑے لیڈروں اور کارکنوں کے درمیاں کھڑی ہو چکی دیوار بھی توڑ دیں گے تو وہاں موجود ہزاروں کارکنوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ۔انہوں نے بزرگوں کے تجربوں اور نوجوانوں کے جوش سے پارٹی کو بلندیوں پر پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ۔

پارٹی کے کھلے اجلاس سے راہل گاندھی نے دو بار خطاب کیا پہلا خطاب رسمی تھا لیکن دوسرے خطاب میں راہل گاندھی نے نہ صرف عوام کے دلوں کو چھو لینے والی باتیں کہیں بلکہ اپنے زور خطابت کا لوہا بھی منوایا اس خطاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی تنقید کے دوران بھی مخالفین کے لئے کوئی نازیبا اور طنزیہ الفاظ نہیں استعمال کیے۔ حالانکہ وہ خود سنگھ پروار کے چھوٹے بڑے سبھی نیتاؤں کی طنز اور الزام تراشی کا سب سے بڑا شکار رہے ہیں راہل کے اس شریفانہ رویہ کے باوجود ان کی تقریر ختم ہوتے ہی ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر سنگھی گالی باز ہی نہیں چار چار مرکزی وزرا ءاور پارٹی کے درجنوں ترجمان میدان میں کود پڑے اور ان پر تنقید اور طنز کے تیر چلانے لگے ، زر خرید الیکٹرانک میڈیا کے اینکر بھی بی جے پی لیڈروں کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھے گئے ان کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا لیکن تب یہ سوال تو فطری طور سے اٹھتا ہے کہ جب بقول ان کے راہل کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تو سنگھ پریوار کےہزاروں گالی باز مرکزی وزرا ءپارٹی کےدرجنوں ترجمان راہل گاندھی پر طنز کسنے اور اور ا ن کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے کیوں کم پڑتے ہیں مرکزی وزرا ءکو کیا عوامی خزانہ سے اس کے لئے تنخواہ یا دیگر بھتے اور سہولیات ملتی ہیں ۔

صدارتی تقریر میں راہل گاندھی نے مستقبل کے اپنے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے برخلاف کانگریس کا راستہ پیار اور محبّت کا ہے سنگھ ملک میں نفرت اور غصّہ پھیلاتی ہے ہم اس کی جگہ پیار اور یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں ۔ اس وقت ملک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس کی جذباتی ہم آہنگی اور یکجہتی کو برقرار رکھنے کی ہے۔ سنگھ پریوار اپنے سیاسی فائدے کے لئے صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہی منافرت اور غلط فہمی نہیں پھیلا رہا ہے بلکہ سماج کے ہر طبقے کو ایک دوسرے کےخلاف کھڑا کر رہا ہے۔ اتر پردیش اسمبلی الیکشن میں اس نے دلتوں کو جاٹو اورغیر جاٹووں میں تفریق پھیلائی اور پسماندہ طبقوں میں یادو اور غیر یادؤں کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر سیاسی فائدہ اٹھایا ، اتنا ہی نہیں وہ مسلمانوں میں بھی مسلکی تفریق کو بڑھاوا دے کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔ اس کی باٹو اور حکومت کرو کی حکمت عملی کے خلاف راہل گاندھی نے سماج کے ہر طبقہ کو ایک لڑی میں پرو کر قومی یکجہتی کو مضبوط کر نے کے عزم کا اظہار کیا ۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی (دائیں) کانگریس صدر راہل گاندھی کو دعاوں سے نوازتے ہوئے

آج ملک کی سب سے بڑی ضرورت نفرت کے ان سوداگروں کو شکست فاش دے کر ملک کی جذباتی ہم آہنگی کی حفاظت ہے کیونکہ ملک بھوک تو برداشت کر سکتا ہے پھوٹ نہیں ہم متحد رہ کر ہی بیرونی اور اندرونی خطروں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں ۔راہل گاندھی نے بات بات پر مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کہنے کی روش پر بھی اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا اس رجحان کو قطعی برداشت نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس کے خلاف پوری طاقت سے لڑیں گے۔ راہل گاندھی نے بیروزگاری جوکہ آج کے ہندستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ کانگریس کی حکومت چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دے کر اس سنگین مسئلہ کو حل کرےگی۔ انہوں نے لکھنؤ، مرادآباد، وارانسی اور شیو کاشی جیسے شہروں کا خصوصی طور سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کی روایتی دستکاری اور صنعت کو فروغ دے کر نو جوانوں کو روزگار فراہم کرایا جاےگا ۔انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ کانگریس کی سابقہ حکومت نے کسانوں کا ستر ہزار کروڑ روپیہ قرض معاف کر کے ایک تاریخ رقم کی تھی اور کسانوں کو ا ن کی پیداوار کا اب تک کی سب سے زیادہ سہارا قیمت بھی دی تھی۔ انہوں نے نوجوانوں کو یہ بھی یقین دھانی کرائی کہ ملک میں اور زیادہ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم ادارے کھولے جائیں گے تاکہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر تعلیم مہیّا کرائی جا سکے ۔ کانگریس کےنئے صدر نے پاکستان سے تعلقات استوار کرنے کے لئے گفتگو کا سلسلہ شروع کرنے کا بھی اشارہ دیا اور کہا کہ گولی کے جواب میں گولی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک آج ایک بےحد سنگین دور سے گزر رہا ہے ، نوٹ بندی ، جی ایس ٹی جیسے نا عاقبت اندیشانہ فیصلوں نے ملکی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں ،سماج کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو ان دو فیصلوں کی حدت نہ محسوس کر رہا ہو ، ان احمقانہ فیصلوں کو لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ ، پی چدمبرم ، ارن شوری ، یشونت سنہا سمیت ممتاز ماہرین معاشیات نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ سب سامنے آنے لگے ہیں ، ایک لمبے عرصہ تک ارباب اقتدار نے اپنی لفّاظی اور چرب زبانی سے عوام کو گمراہ کر کے رکھا لیکن اب جب حقیقت سامنے آنے لگی تو عوام کا برگشتہ ہونا لازمی تھا ، اس کا سب سے اہم سیاسی اثر دکھائی دیا گجرات اسمبلی کے الیکشن میں جہاں بی جے پی نے اپنا سب سے مضبوط قلعہ بمشکل بچا سکی، اس کے بعد مدھیہ پردیش اور راجستھان کے ضمنی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی اور بی جے پی کی شکست سے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ گیا ، رہی سہی کثر اتر پردیش کے وزیرا علی یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیر اعلی کیشوپرساد موریہ کی خالی ہوئی سیٹوں پر ان کے امیدواروں کی شکست نے پوری کر دی ادھر بہار میں بھی بی جے پی کو تین میں سے دو سیٹوں پر ہار کا منہ دیکھنا پڑا اور جس لالو پرساد یادو کو جیل بھجوانے اور نتیش کو اپنے پالے میں کر لینے کے بعد بی جے پی بہار کو اپنی مٹھی میں دیکھ رہی تھی وہ بھی اس کے ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے ۔ ڈوبتا جہاز دیکھ کر اب بی جے پی کے حلیف بھی اس سے کنارہ کرنے لگے ہیں یہاں تک کہ تیلگو دیسم پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس نے تو مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتمادہی پیش کر دی ہے۔ملک معاشی طور سے کھوکھلا ہو چکا ہے ملک کی سرحدیں کبھی اتنی غیر محفوظ نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ چین ڈوکلام میں پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہے، صدر زن پنگ نے شدید خونی جنگ کی دھمکی دی ہے سبھی پڑوسی ملک ہندستان سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہندستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے ۔اندرونی طور پر دیکھا جائے تو سماج میں تفریق ، غلط فہمی اورنفرت جو آج دکھائی دیتی ہے ، اتنی شاید تقسیم وطن کے زمانہ میں بھی نہیں تھی ، محض چار برسوں میں یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے یہ تمام اہل خرد کو دعوت فکر دے رہا ہے ۔

لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ مودی جی کا خمار دھیرے دھیرے اتر رہا ہے نہ صرف عوام، حزب مخالف بلکہ ان کی حلیف پارٹیاں بھی اب لب کشائی کرنے لگی ہیں سیاسی موسم پہچاننے کی بے مثال صلاحیت رکھنے والے رام ولاس پاسوان نے بھی آنکھ دکھانا شروع کر دیا ہے اور نتیش بھی لب کشائی کرنے لگے ہیں ۔بحیثیت مجموعی کل تک جو بی جے پی نا قابل تسخیر سمجھی جا رہی تھی اب آندھ بھکتوں کو چھوڑ دیں تو عوام یہ کہنے لگی ہے کہ2019مودی جی کے لئے ٹیڑھی کھیر ہوتا جا رہا ہے۔لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آر ایس ایس کے ترکش میں ابھی بہت تیر ہیں اورنریندر مودی جیسا انتخابی مہم کا مہارتھی اور امت شاہ جیسا تکڑم باز، ہاری ہوئی بازی پلٹنے میں مہارت رکھتے ہیں ،کانگریس کو اس کی کاٹ بھی ڈھوندھنی ہوگی ۔

اب حالات کانگریس کے لئے خاصے سازگار ہوتے جا رہے ہیں لیکن اس کے سامنے چنوتیوں کا انبار ہے اسے اپنے تنظیمی ڈھانچہ کی جانب توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط سیاسی محاذ بھی بنانا ہوگا لیکن یہ خیال رکھتے ہوئے کہ پھر کوئی نتیش کمار ،کوئی چندرا بابو نائیڈو اور کوئی چندر شیکھر راؤ اس محاذ میں نہ آ نے پائے ۔ راہل گاندھی کے سامنے چیلنج اور مواقع دونوں ہیں اور یہی ان کی قائدانہ صلاحیت کا امتحان ہے اگر وہ کرناٹک کی حکومت بچا نے اور مدھیہ پردیش ،راجستھا ن اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کو بر سر اقتدار لانے میں کامیاب ہوتے ہیں ، جس کے امکان اب کافی روشن دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر ایسا ہو ا تو نہ صرف 2019 بلکہ اگلی کئی دہایوں تک راہل کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں بچےگا ۔ ملک اور کانگریس کا مفاد راہل کی کامیابی میں ہی مضمر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔