مرکز نے ’راجدھانی چنڈی گڑھ‘ معاملے پر پنجاب اور ہریانہ کے درمیان کھولا نیا محاذ!

چنڈی گڑھ کے ملازمین پر مرکز کے سروس رول نافذ کرنے کے بعد پیدا گھمسان کا انجام کچھ بھی ہو، لیکن مودی حکومت نے دونوں ریاستوں کے درمیان ایک نیا محاذ ضرور کھول دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

دھیریندر اوستھی

مرکزی حکومت نے ہریانہ اور پنجاب کے درمیان ایک نیا فرنٹ یعنی محاذ کھول دیا ہے۔ راجدھانی چنڈی گڑھ کو لے کر دونوں ریاستیں آمنے سامنے کھڑی ہو گئی ہیں۔ حالات ایسے بن گئے ہیں کہ پنجاب نے اپنا خصوصی اسمبلی اجلاس بلا کر چنڈی گڑھ کو فوراً پنجاب کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اب ہریانہ میں بھی اسمبلی اجلاس فوراً طلب کر اس میں قرارداد پاس کر چنڈی گڑھ پر ریاست کا حق پختہ کرنے کا مطالبہ اٹھ رہا ہے۔ کسان تحریک کے دوران دونوں ریاستوں میں بنا بھائی چارہ ایک بار پھر مرکز کی مودی حکومت نے تار تار کر دیا ہے۔ اب سیاسی پنڈت مرکز کے اس قدم کے بعد بی جے پی کی سیاسی منشا کے تار تلاش کر رہے ہیں۔

چنڈی گڑھ کے ملازمین پر مرکز کے سروس رول نافذ کرنے کے بعد پیدا گھمسان کا انجام کچھ بھی ہو، لیکن مودی حکومت نے دونوں ریاستوں کے درمیان ایک نیا محاذ ضرور کھول دیا ہے۔ ایس وائی ایل، پنجاب کے ہندی لسانی علاقہ اور اسمبلی میں اپنا حق ہریانہ پہلے ہی طلب کر رہا ہے۔ اب مرکز کے قدم سے راجدھانی کا جنّ ایک بار پھر بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ نہ صرف اسمبلی میں 60 اور 40 کے تناسب میں پنجاب اور ہریانہ کے درمیان بنٹوارا ہے بلکہ چنڈی گڑھ میں بھی اسی تناسب میں دونوں ریاستوں کے ملازمین تعینات کرنے کا انتظام چلا آ رہا ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان کئی مسائل بے حد حساس ہیں۔ پھر ابھی فوراً ایسی کیا ضرورت آ پڑی تھی کہ امت شاہ نے چنڈی گڑھ آ کر یہاں کے ملازمین پر سنٹرل سروس رول لگانے کا اعلان کر دیا اور یکم اپریل سے اسے انجام بھی دے دیا گیا۔ وہ بھی تب جب ایسی کوئی بڑی تحریک بھی حال میں اس مطالبہ کو لے کر چنڈی گڑھ میں نہیں چل رہی تھی۔ بھاکھڑا بیاس مینجمنٹ بورڈ (بی بی ایم بی) میں پنجاب اور ہریانہ کے دو مستقل اراکین کی ہونے والی تعیناتی کا راستہ دوسری ریاستوں کے لیے بھی کھولنے کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھا کہ اس ایشو نے پھر سیاسی فضا کو گرم کر دیا ہے۔ جمعہ کو پنجاب کی عام آدمی پارٹی حکومت نے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر چنڈی گڑھ کا مکمل اختیار پنجاب کو دینے کے لیے قرارداد اتفاق رائے سے پاس کر دیا۔ اس سے پہلے بھی 1967، 1970، 1978، 1985، 1986 اور 2014 کو یہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں آ چکا ہے۔


بھگونت مان نے اس کے پیچھے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد مرکز کی استحصال والی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ چنڈی گڑھ پر پنجاب کے حق کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھائی جائے گی۔ پنجاب حکومت کی دلیل ہے کہ پنجاب کے گاؤں کو اجاڑ کر اس وقت چنڈی گڑھ بسایا گیا۔ اسے عارضی طور پر کچھ سال کے لیے مرکز کے زیر انتظام خطہ بنایا گیا تھا۔ مرکز اب اسے پنجاب کو دے۔ بی جے پی کو چھوڑ کر پنجاب کے سبھی پارٹی اس ایشو پر متحد ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف ہریانہ میں بھی سبھی پارٹی ایک ساتھ آ گئے ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ حزب مخالف لیڈر بھوپندر سنگھ ہڈا نے پنجاب حکومت کے ذریعہ اسمبلی میں چنڈی گڑھ کو لے کر پیش کردہ قرارداد پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے اس قرارداد کے خلاف دہلی میں کانگریس قانون ساز پارٹی کی میٹنگ بلائی ہے۔ ہڈا کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت بے وجہ دونوں ریاستوں کے بھائی چارے میں دراڑ ڈالنا چاہتی ہے۔ چنڈی گڑھ ہریانہ کی راجدھانی تھی، ہے اور رہے گی۔ شاہ کمیشن نے بھی کہا تھا کہ چنڈی گڑھ پر پہلا حق ہریانہ کا ہے۔ اگر پنجاب حکومت ریاستوں کے مسائل پر بات کرنے کی خواہش مند ہے تو اسے سب سے پہلے ایس وائی ایل کو لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ہندی لسانی علاقوں سمیت تمام مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ہریانہ حکومت کو پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد کے خلاف بلاتاخیر ایک کل جماعتی میٹنگ بلانی چاہیے۔ ریاستی کانگریس صدر کماری شیلجا کا کہنا ہے کہ پنجاب کی عام آدمی پارٹی حکومت کے ذریعہ اسمبلی میں قرارداد پیش کر کہنا کہ چنڈی گڑھ پر صرف پنجاب کا حق ہے، چنڈی گڑھ کو صرف پنجاب راجدھانی قرار دیا جائے، یہ قرارداد عآپ کی ہریانہ مخالف سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ چنڈی گڑھ ہریانہ کا ہے اور چنڈی گڑھ پر ہریانہ کا پورا حق ہے۔ عآپ ہو یا بی جے پی، دونوں کو ہی ہریانہ کے مفادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ شیلجا نے 4 اپریل کو چنڈی گڑھ میں اس ایشو پر میٹنگ بلائی ہے۔


وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کا کہنا ہے کہ چنڈی گڑھ دونوں ہی ریاستوں کی راجدھانی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ دونوں کا چنڈی گڑھ پر حق ہے۔ پنجاب کے ایسے یکطرفہ قرارداد کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انڈین نیشنل لوک دل رکن اسمبلی ابھے چوٹالہ نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کو فوراً اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر ہریانہ کے مفادات کے لیے چنڈی گڑھ اور ایس وائی ایل پر ایک قرارداد پاس کرنا چاہیے کہ چنڈی گڑھ ایشو پر شاہ کمیشن کی رپورٹ اور ایس وائی ایل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ فوری اثر سے نافذ کیا جائے۔ ابھے چوٹالہ کا کہنا ہے کہ شاہ کمیشن کی رپورٹ میں صاف کہا گیا تھا کہ چنڈی گڑھ پر پہلا حق ہریانہ کا ہے اور اگر چنڈی گڑھ کو پنجاب کو دیا جاتا ہے تو 109 ہندی لسانی گاؤں ہریانہ کو دیے جائیں گے۔ ماہم سے آزاد رکن اسمبلی بلراج کنڈو کا کہنا ہے کہ ہریانہ اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر نہ صرف پنجاب کے اس قرارداد کی مخالفت کی جائے بلکہ چنڈی گڑھ کے حق میں ہریانہ کا نیا قرارداد تیار کر مرکزی حکومت کو بھیجا جائے۔ ساتھ ہی ہریانہ کے سبھی لیڈروں کو ساتھ لے کر چنڈی گڑھ پر اپنی دعویداری کو لے کر صدر جمہوریہ، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ملاقات کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے مرکز کے ایک اس ایک قدم نے پنجاب انتخاب کے بعد یہاں کے پرامن ماحول کو ایک بار پھر گرم کر دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔