سری لنکا: مسلم خواتین کا نقاب ناقابل قبول، ریاستی نا اہلی بھلے چھپی رہے

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ملک کے پاس وہ پیشہ ورانہ تجربہ نہیں جوخفیہ طور پر متحرک گروہوں تک رسائی اور سرکوبی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

بودھ اکثریتی ملک سری لنکا میں مسیحی تہوارکے موقع پر المناک واردات کے نتیجے میں 40 غیرملکی بشمول 8 ہندوستانیوں سمیت 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جبکہ تقریباً پانچ سو افراد زخمی، تین گرجا گھر اور تین ہوٹل اور دو ارب ڈالر کی سیاحتی صنعت پل بھرمیں برباد ہوگئی۔ ان حملوں کی ذمہ داری سری لنکا کے حکام نے مقامی تنظیم نیشنل توحید گروپ پرڈالی ہے جو ایک چھوٹی سی علاقائی تنظیم ہے۔ اس حوالے سے حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کس طرح یہ چھوٹا سا گروہ اس قدر منظم کارروائی کرسکتا ہے اور اس کے پیچھے محرکات کیا تھے؟

جبکہ حملے کے کچھ دیر بعد ہی داعش نے اس خونریز کارروائی کی ذمہ داری لی تھی جوشام اورعراق میں ختم ہونے کے بعد اب چندعلاقوں میں اپنے آخری ایام گن رہی ہے۔ ان حملوں کو نیوزی لینڈ حملوں کا جواب بھی بتایا جارہا ہے۔ نیوزی لینڈ حملوں کے بعد دنیا بھرمیں مسلمانوں کے لئے ہمدردی کے جو جذبات پیدا ہوئے تھے اور جو مسلمانوں کی شبیہ ’خراب‘ تھی، وہ بہتر ہونے لگی تھی۔ ممکن ہے کہ کچھ شرپسند عناصروں نے سری لنکا میں یہ حملے کروائے ہوں تاکہ امن پسند اسلام کو ایک بارپھرشدت پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جا سکے۔


اس وقت سری لنکا کی مسلمان آبادی اضطراب کا شکار ہے، جنہیں برسوں سے بدھ انتہا پسندوں کی طرف سے سخت شکایات رہی ہیں۔ جبکہ ان تمام برسوں میں سری لنکا کی مسیحی آبادی کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اچھے تھے کیونکہ دونوں اقلیت میں ہیں۔ اب اس واقعے کے بعد مسیحی برادری کے دلوں میں شکوک و خدشات کا اضافہ یقینی ہے۔ ملک بھرمیں مسلمانوں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے کیونکہ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے کسی حملے کا خدشہ موجود ہے۔ مسلمان رہنماؤں نے حملہ آوروں کی لاشیں لینے اور نمازجنازہ پڑھنے سے انکارکر دیا ہے اور کہا ہے کہ ان لوگوں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سری لنکا کی مسلمان آبادی نے اس دکھ کی گھڑی میں اپنے مسیحی بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کا بھی اظہار کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم مرنے والے کا مذہب دیکھ کر افسوس کرتے ہیں۔ سانحہ نیوزی لینڈ کے موقع پرتمام مسلمان ماتم کناں نظر آئے لیکن اس کا عشرعشیر بھی سانحہ سری لنکا کے موقع پرنظرنہیں آیا۔


پوراعالم اسلام نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا شکر گزار نظر آیا لیکن ہم میں سے کسی نے جیسنڈا کے پیغام کا ادراک نہیں کیا۔ جیسنڈا نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ تمام ناحق مرنے والے ہمارے اپنے ہیں اور کبھی بھی مرنے والے کا مذہب دیکھ کر افسوس نہ کیا جائے بلکہ انسانیت کے ناطے ہم سب کو مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے، لیکن جیسنڈا کو یہ کون سمجھائے کہ ہم مرنے والے کا ’مسلک‘ بھی دیکھتے ہیں، مذہب تو بعد کی بات ہے۔ سری لنکا کی کم و بیش 10 فیصد آبادی مسلمان ہے جو صدیوں سے سری لنکا کے باشندے ہیں۔ اگرکہا جائے کہ سری لنکا کے مسلمان جنوبی ایشیا کے ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے، توغلط نہ ہوگا۔ زمانہ قدیم میں ہی مسلمان عرب تاجر سمندر کے راستے ہندوستان کے جنوبی علاقوں مالابار و کیرالہ اور سری لنکا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوتے گئے۔ بہت سے عرب ان علاقوں میں بس گئے اور مقامی افراد میں گھل مل گئے۔ ان تاجروں کی وجہ سے بہت سے مقامی افراد نے اسلام بھی قبول کیا۔

سری لنکا کے ساحلوں میں تجارت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی ہے۔ یہ مسلمان تاجر گرم مصالحے اور دیگر بہت سی اشیا کی تجارت کیا کرتے تھے لیکن مسلمانوں کا یہ امتیاز پرتگیزیوں کی آمد کے بعد ختم ہوا۔ اسپین اور پرتگال میں اسلامی ریاست کے خاتمے اور عیسائیت کے غلبے کے بعد، وہاں کے جہازراں دنیا بھر میں تجارت واقتدار کے لیے لنگر انداز ہوتے رہے۔ ان میں سے ایک جہازراں واسکو ڈی گاما 1498 میں ہندوستان تک کا بحری سفر ایک عرب تاجر کے دیئے ہوئے نقشے کی مدد سے طے کرتا ہوا جنوبی ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ پہنچا۔ اس کے بعد پورے خطے کے سمندروں میں پرتگیزیوں کی اجارہ داری قائم ہوئی۔


ان پرتگیزیوں نے سری لنکا کی مسلمان آبادی جومتمول تھی اورتجارت کے پیشے سے منسلک تھی، کے خلاف قتل وغارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے تجارتی تفوق چھین لیا۔ یہ مسلمان سری لنکا کے اندرونی علاقوں میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے۔ سری لنکا کے مسلمانوں میں صوفی تعلیمات کی گہری چھاپ ہے، متعدد صوفی سلسلے صدیوں سے رہے ہیں۔ البتہ حالیہ دور میں تصوف کے خلاف باقاعدہ مہم چلی، جس کے نتیجے میں چند سال قبل سری لنکائی مسلمانوں میں مسلکی جھگڑے نمایاں ہوئے۔ انہی سخت گیرتعلیمات کے نتیجے میں سری لنکا کی توحید جماعت وجود میں آئی۔ جس پرآج ان حملوں کی ذمہ داری عائد کی جا رہی ہے۔ اس جماعت پر2017 میں بدھ مت کے پیروکاروں کے خلاف حملے اور مہاتما بدھ کے متعدد مجسموں کے چہرے مسخ کرنے کا بھی الزام ہے۔ ان مبینہ حرکتوں کی وجہ سے بدھ مت کے پیروکاروں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال میں اضافہ ہوا۔

تملوں کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں اور بنیادی شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی قربانی کی قیمت پر26 برس تک چلی خانہ جنگی کاخاتمہ کرنے والے سری لنکا کے حوالے یہ بات نا قابل فہم ہے کہ ملک کے پاس وہ پیشہ ورانہ تجربہ نہیں جوخفیہ طور پر متحرک گروہوں تک رسائی اور سرکوبی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔


جب 21 اپریل کوواردات ہو گئی تو فوراً بعد وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے بیان دیا کہ اگرکوئی ایسی اطلاع تھی تو ان کے علم میں نہیں، شاید صدر کوعلم ہو کیونکہ دفاع اور داخلہ کے معاملات صدرمیتری پالا سرسینا دیکھتے ہیں۔ صدر نے بھی لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میری میز تک ایسی کوئی فائل نہیں پہنچی۔ جس کے نتیجے میں پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتیں۔ یہ وہ المناک صورتِحال ہے جو کسی بھی ریاست کو مفلوج کرنے کے لئے کافی ہے اور دیگر ریاستوں اور ان کے اداروں کو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

سری لنکا کا انتظامی بحران گزشتہ برس اکتوبرمیں شروع ہوا جب صدر سرسینا نے اچانک وزیراعظم رانیل کی حکومت برطرف کر کے راجہ پکشے کو نیا وزیراعظم مقرر کر دیا۔ 51 روز تک ملک میں دو وزیراعظم رہے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بظاہرسیاسی بحران ختم ہوگیا مگرصدر اور وزیر اعظم کے دفاتر کے درمیان رابطہ عملی طور پر معطل ہی رہا۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کوقومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ اس کا اثرقومی اداروں اور اعلیٰ اہلکاروں پر پڑا جنھیں یہی نہیں معلوم تھا کہ کسے کس کو جوابدہ ہونا ہے اور کیا کیا انتظامی فیصلے اوپر والوں کے لئے چھوڑنے ہیں اور کون سے فیصلے نچلی سطح پر کرنے ہیں اور پھر اس فالج زدہ نظام میں پڑنے والے شگافوں کا فائدہ دہشت گردوں نے آسانی سے اٹھا لیا۔


اگرچہ صدر اور وزیراعظم نے قوم کے سامنے اجتماعی ریاستی ناکامی کا اعتراف تو کیا ہے مگر اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوۓ کوئی بھی استعفیٰ دینے کو تیار نہیں۔ صدر نے قربانی کا بکرا پولس سربراہ اور سکریٹری دفاع کو بنا کر انھیں برطرف کر دیا۔ حکومت پرتنقید روکنے کے لئے سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندی کی میعاد بڑھا دی گئی۔ اس کے تحت سیکورٹی اہلکارکہیں بھی کسی کو بھی گرفتار کر کے 90 روزتک بلا وارنٹ قید رکھ سکتے ہیں۔ سری لنکا میں 8 برس بعد پھر ایمرجنسی واپس لوٹ آئی ہے، میڈیا کو سینسر کیا جا رہا ہے، عوام کی توجہ سرکاری ناکامیوں سے ہٹانے کے لئے نمائشی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً منہ ڈھانپنے پر پابندی۔ بقول صدرنقاب کی روایت نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔ گویا اصل مسئلہ ریاستی اداروں کا مفلوج ہونا نہیں بلکہ نقاب ہے۔ ریاستی نااہلی پر بھلے نقاب پڑا رہے مگر مسلمانوں کے چہرے پر قبول نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 02 May 2019, 6:10 PM