بجٹ 2018: الفاظ کی جادوگری 

مودی حکومت نے الفاظ کی جادوگری کی اپنی مہارت کا ایک بار پھر مظاہرہ کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست بنانے کا ڈھنڈھورا پیٹنا شروع کر دیا ہے۔

کھیت پر کام کرتے مزدور(فائل تصویر)
کھیت پر کام کرتے مزدور(فائل تصویر)
user

عبیداللہ ناصر

وزیر اعظم نریندر مودی کی موجود مدّت اگلے سال ختم ہو جائےگی اس لئے اس بجٹ کو ان کا آخری بجٹ بتایا جا رہا ہے عام انتخابات کےساتھ ہی ساتھ بی جے پی کے لئے اہم کرناٹک ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن بھی اسی بجٹ کے بعد میں ہو ں گے ، اس لئے اس بجٹ کو انتخابی بجٹ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا ۔وزیر مالیات ارون جیٹلی نے اسی لئے اپنے بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ دیہی اورکسانوں پر دی ہے اس سلسلہ میں ان کا سب سے بڑا اعلان سوامی ناتھن کیمٹی کی سفارشات کے مطابق کسانوں کو ان کی پیداوار کی لاگت پر پچاس فیصد منافع کے ساتھ سرکاری خریداری کی قیمت کا اعلان کیاہے ،کہنے کو تو یہ بہت دلکش اور کسانوں کے مفاد کی اسکیم ہے لیکن اس پر عمل درآمد بہت ہی مشکل ہےتقریباً نا ممکن سا عمل ہے کیونکہ ہندستانی کسان غلہ ،پھل اور سبزی وغیرہ ملا کر تقریباً سو فصلیں بوتا ہے کیا حکومت سب کی سرکاری قیمت متعیّن کر سکتی ہے ۔ سرکاری قیمت متعیّن کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ حکومت اگر بازار میں اس سے کم قیمت پر کسان کی پیداوار فروخت ہو رہی ہے تو اسے خرید لےگی جو ایک ناممکن سی بات ہے۔

دوسرا سب سے اہم معاشی سوال یہ ہے کہ جب سرکار مہنگا غلہ خریدے گی تو وہ صارفین کو کس قیمت پر دےگی، کیا کوئی معیشت اتنا بھاری بوجھ اٹھانے کی متحمل ہو سکتی ہے کہ کھربوں روپیہ صرف عوام کو سستا غلہ فراہم کرنے پر خرچ کر دے اور بات صرف غلہ تک ہی محدود نہیں ہے پھل،سبزیاں سرکاری نرخ پر خریدنا اور انھیں محفوظ رکھنا یہ سارے مسائل سامنے آئیں گے حکومت نے ان تمام مسائل سے نپٹنے کے لئے حکومت نے نہ تو کوئی خاکہ پیش کیا ہے اور نہ ہی بجٹ میں اس کے لئے کتنا سرمایہ مختص کیا گیا ہے یہ واضح کیا ہے ۔یہ اسکیم دیکھنے میں جتنی اچھی لگتی ہے عمل درآمد کے پیمانہ پر اتنی ہی مشکلات سے بھری ہوئی ہے دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا راستہ اختیار کرتی ہے ۔

بجٹ میں زراعت اور دیہی علاقوں میں ڈھانچہ جاتی سہولیات کے فروغ کے لئے کچھ اچّھے اعلانات بھی کے گئے ہیں مثلاً ٹھیکے پر کھیتی کرنے والوں کے لئے قرض کی سہولت جو اب تک صرف زمین مالکوں کو ملتی تھی یہ ایک بہت مثبت قدم ہوگا جس کا فائدہ کھیت مالکوں اور کسان دونوں کو ملےگا اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں ڈھانچہ جاتی سہولیات کے لئے 14لاکھ کروڑ رو پیہ کا بھی انتظام بجٹ میں کیا گیا ہے ، جس سے سڑکوں ، بیت الخلا کی تعمیر ، بجلی کنکشن اور خواتین سلف ہلپ گروپ کو مالی امداد بھی شامل ہے ۔دراصل حکومت کی چار برسوں کی معاشی پالیسی کا محور صرف کارپوریٹ سکٹر کے رہنے کی وجہ سے اس پر سوٹ بوٹ کی سرکار ہونے کی جو مہر لگ لگی تھی اس امیج کو توڑنا حکومت کی پہلی ترجیح بن گیا تھا کیونکہ اس انتخابی سال میں حکومت دیہی علاقوں کو نظر انداز کر کے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔حالانکہ دیہی علاقوں اور کسانوں کے مسائل کا جو حل انہوں نے تلاش کیا ہے وہ آگے چل کر ایک بڑا مسئلہ بھی بن سکتا ہے، جس کا اثر معیشت کا ہر زمرہ محسوس کرےگا لیکن فی الحال حکومت واہ واہی اور ووٹ دونوں حاصل کرنے کے لئے زیادہ فکرمند ہے ۔

حکومت نے صحت بیمہ اسکیم بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو اب تک کی حفظان صحت زمرہ کی سب سے بڑی اسکیم بتائی جارہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت حکومت دس کروڑ غریب خاندانوں کو پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کا صحت بیمہ کرائےگی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے پچاس کروڑ لوگوں کو فائدہ ہوگا۔لیکن اس کا اصل فائدہ عوام اور ضرورت مندوں تک پہنچےگا اس پر سوالیہ نشان لگا ہے کیونکہ اب تک کا تجربہ تلخ ہی رہا ہے ، حکومت نے فصل بیمہ اسکیم شروع کی تھی اس کا سب سے زیادہ فائدہ بیمہ کمپنیوں نے اٹھایا۔ آج بھی پرائیویٹ اسپتال اور نرسنگ ہوم ہی نہیں سرکاری اسپتال بھی لوٹ کھسوٹ اور مریضوں کے استحصال کے لئے بدنام ہیں ، کل جب وہ بیمہ کے ذریعہ علاج کرائیں گے تو کیا مریضوں پر ویسی توجہ، معقول قیمت پر علاج اور دیگر سہولیات دیں گے اس پر یقینی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ دوسرے عوامی صحت کسی بھی ویلفیئر اسٹیٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے حکومت کسی سیکٹر کوپیسے دے کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ کیسے ہو سکتی ہے ، علاج کی اصل لاگت اور بیمہ لاگت میں زمین آسمان کا فرق ہوگا ابھی تو مختلف جانچوں وغیرہ کے نام پر مریضوں کا خون چوسا جاتا ہے ، بیمہ علاج میں مریض یا اس کے تیماردار کوئی اعتراض بھی نہیں کر پائیں گے کیونکہ انھیں پتہ ہی نہیں چلےگا کہ ان سے کس مد کا کون سا پیسہ لیا گیا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق اس اسکیم پر حکومت کو ہر سال بارہ ہزار کروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑےگا اس میں سے ساتھ فیصدی حصّہ مرکزی اور چالیس فیصدی حصّہ ریاستی حکومتوں کو دینا ہوگا جی ایس ٹی لگنے کے بعد ریاستی حکومتوں کو اپنے وسائل سے آمدنی بڑھانا ویسے ہی مشکل ہو گیا ہے ۔ اتنا بڑا بوجھ وہ کیسے اٹھائیں گے ، یہ قابل غور مسئلہ ہے۔

متوسط طبقہ بی جے پی کا ہمیشہ سے کور ووٹ بینک رہا ہے یہ طبقہ اس بار انکم ٹیکس میں بڑی راحت کی امید کر رہا تھا اسے رہ رہ کے وزیر مالیات ارن جیٹلی کا منموہن حکومت کے دور کا یہ بیان یاد آ رہا تھا کہ پانچ لاکھ آمدنی تک پر انکم ٹیکس نہیں ہونا چاہئے اسے بی جے پی کایہ انتخابی وعدہ بھی یاد آ رہا تھا کہ مودی حکومت میں متوسط طبقہ کو انکم ٹیکس دینا ہی نہیں پڑے گا لیکن اس بجٹ سے اسے سخت مایوسی ہاتھ لگی ہے ۔یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا کہ اس کا ووٹنگ رجحان کیا ہوگا ، لیکن ملازمت پیشہ اور متوسط طبقہ اس بجٹ سے سخت نا امید ہے اور پانی پی پی کے حکومت کو کوس رہا ہے ، اسی طرح نوجوانوں کو بھی مایوسی ہاتھ لگی ہے کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت، پانچ برسوں میں دس کروڑ نوکریاں دینے کے بجائے اس سال ستر لاکھ لوگوں کو نوکری دینے کا وعدہ کر کے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے ۔

ادھر لانگ ٹرم کیپٹل گین کے نام پر لگائےجانے والے مجوزہ ٹیکس سے حصص بازار میں تہلکہ مچ گیا ہے اورآٹھ سو پوئنٹ نیچے گر جانے سے انویسٹرس کے قریب پانچ ہزار کروڑ روپیہ ایک جھٹکے میں ڈوب گئے۔

مودی حکومت نے الفاظ کی جادوگری کی اپنی مہارت کا ایک بار پھر مظاہرہ کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دوست بنانے کا ڈھنڈھورا پیٹنا شروع کر دیا ہے ، لیکن عوام کو اب وہ کتنے دنوں تک خوابوں کی دنیا میں رکھ سکےگی اس کا پتہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں چل جاےگا ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Feb 2018, 7:32 AM