بنگال میں مرکز کے اتاؤلے پن نے بی جے پی کو ہی پہنچایا نقصان... سرور احمد

مٹھی بھر بنگالی ووٹ یا پھر آسام کے بنگلہ ووٹروں کو خوش کرنے کی خاطر بی جے پی نے نہ صرف سبھی اپوزیشن پارٹیوں کو نئے سرے سے متحد کر دیا بلکہ پورے ملک میں نئے سیاسی مخالفین بھی پیدا کر لیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

بی جے پی نے پہلے تو شہریت بل پر اپنے لیے مصیبت کھڑی کی اور پھر دیکھتے دیکھتے شمال مشرق کی آٹھ سیاسی پارٹیاں اس کے خلاف ہو گئیں۔ یہاں تک کہ بہار میں اس کی معاون جنتا دل یو نے بھی اس ایشو پر شمال مشرق کی پارٹیوں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

مغربی بنگال میں کولکاتا کے پولس کمشنر راجیو کمار کے خلاف سی بی آئی کا جس طرح استعمال کیا گیا اس سے پڑوسی ریاست اڈیشہ میں نوین پٹنایک کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔ آخر شاردا گھوٹالے کے کچھ تار اڈیشہ سے بھی جڑے ہیں۔ بی جے ڈی ابھی تک بی جے پی اور کانگریس دونوں سے ہاتھ بھر دوری بنا کر چلنے والی پارٹی رہی ہے۔ لیکن مغربی بنگال کے واقعہ کے بعد بی جے ڈی نے کھل کر مرکزی حکومت کے طور طریقوں پر سوال اٹھائےہیں۔

یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک نے اس طرح کھل کر مرکزی حکومت کے ذریعہ اپنے اختیارات کے بیجا استعمال پر سوال کھڑے کیے ہیں۔ اسی طرح بی جے پی آندھرا پردیش میں اپنے دوست اور وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو سے ہاتھ دھو چکی ہے۔ مغربی بنگال کی ہی طرح آندھرا پردیش نے بھی ریاست میں سی بی آئی کے داخلے پر روک لگا رکھی ہے۔

بنگال میں بی جے پی ایسا احساس کرا رہی ہے کہ وہ چٹ فنڈ گھوٹالے میں پھنسی لوگوں کی رقم واپس حاصل کر انھیں لوٹانا چاہتی ہے اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اس کے راستے میں رخنہ پیدا کر رہی ہیں، لیکن اس پوری قواعد میں اسے منھ کی کھانی پڑ گئی۔

مغربی بنگال میں بی جے پی کی نظر اس سیاسی جگہ پر تھی جو بایاں محاذ کے حاشیے پر جانے سے پیدا ہوئی ہے۔ لیکن بنگال میں بی جے پی کی اپنی حدیں ہیں جن سے آگے وہ نہیں جا سکتی۔ حال میں سامنے آئے سبھی سروے بتاتے ہیں کہ بنگال میں بی جے پی بہت اچھی کارکردگی پیش کرے گی تو بھی اسے 6 سے 8 لوک سبھا سیٹیں ہی ہاتھ آئیں گی۔ لیکن اس کے بدلے اسے ملک کے دوسرے حصوں میں کہیں زیادہ سیٹوں کا نقصان ہونے کا امکان ہے۔

مغربی بنگال میں جو کچھ ہوا اس میں ممتا بنرجی درست تھیں یا نہیں، یہ الگ ایشو ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس عمل میں سی بی آئی کی ساکھ نئے سرے سے خراب ہو گئی۔ گزشتہ سال دہلی واقع سی بی آئی صدر دفتر میں 23 اکتوبر کی نصف رات جو کچھ ہوا تھا اسے لوگ اب بھی نہیں بھولے ہیں۔

شاردا گھوٹالے میں جن لوگوں کے پیسے ڈوبے ہیں انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ کس طرح سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانہ ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزام لگا رہے تھے۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ سی بی آئی کی جانچ سے تو کم از کم ان کے پیسے واپس نہیں ملنے والے۔ ممتا بنرجی کے سخت مخالف بھی یہ بات مانیں گے کہ کولکاتا میں جو کچھ ہوا اس کے پیچھے سیاسی منشا ہی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ شاردا گھوٹالہ ملک کا پہلا چٹ فنڈ گھوٹالہ ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی گھوٹالے ہوئے جس میں لوگوں کے ہزاروں کروڑ روپے ڈوبے لیکن کبھی بھی معاملوں پر سیاست اس طرح سے نہیں ہوئی۔

کچھ سال پہلے بہار کے ایک اہم لیڈر کا نام چٹ فنڈ گھوٹالے میں سامنے آیا تھا۔ مرکز کی مودی حکومت میں وہ لیڈر ان دنوں وزیر ہے۔ تب اس گھوٹالے کی جانچ کی کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔ اس لیڈر پر لگے الزام درست تھے یا نہیں، اس کا شاید کبھی پتہ بھی نہیں چلے گا کیونکہ اب تو اس کے خلاف جانچ کی کوئی ہمت نہیں کر سکتا۔

لوگ دلیل پیش کر سکتے ہیں کہ سابقہ حکومتوں میں بھی سی بی آئی کا سیاسی استعمال ہوتا رہا ہے۔ کچھ حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن کبھی بھی کسی مرکزی حکومت نے ایک بے حد معمولی سیاسی فائدے کے لیے سی بی آئی کا استعمال اس طرح نہیں کیا۔ ہر اعتبار سے بی جے پی کو مغربی بنگال میں کوئی خاص سیاسی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ لیکن ہوا یہ کہ بی جے پی نے واضح اکثریت نہ ملنے کی حالت میں کسی بھی انتخاب کے بعد اتحاد کے امکانات پر اپنے لیے ’فُل اسٹاپ‘ لگا لیا۔ خاص طور سے ایسی پارٹیاں جو کسی گروپ کے ساتھ نہیں رہیں، اب بی جے پی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔