اتحاد برقرار رہا تو بی جےپی کیرانہ بھی ہارے گی

ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد اب بی جے پی کیرانہ لوک سبھا سیٹ کو لے کر فکر مند ہو چکی ہے۔ اگر مایاوتی اور اکھلیش یادو کا اتحاد برقرار رہا تو بی جے پی کو وہاں بھی ہار کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

آس محمد کیف

کیرانہ: بی جے پی کیرانہ سے بھی ہار جائے گی اور یہ کوئی ہوا میں کہی گئی بات نہیں ہے بکہ اعدادوشمار بھی اس کے حق میں ہیں۔ کیرانہ سیٹ حکم سنگھ کے انتقال سے خالی ہوئی ہے جو سال 2014 میں ناحید حسن کو ہراکر یہاں سے منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے ناحید حسن کو 2 لاکھ 86 ہزار 8 سو اٹھائیس ووٹوں سے ہرایا تھا اور حکم سنگھ کو کل 5 لاکھ 65 ہزار 90 9 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ ناحید کو 3 لاکھ 36 ہزار ووٹ حاصل ہوئے تھے اور تیسرے مقام پر ان کے سگے چچا کنور حسن رہے تھے جنہیں 1 لاکھ 60 ہزار ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔ آر ایل ڈی (راشٹریہ لوک دل)کے کرتار بھڑانا کو بھی تقریبا 50 ہزار ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اب ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی متحد ہو کر انتخاب میں اتریں گے جبکہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں زبردست گراوٹ آ چکی ہے۔

حکم سنگھ کو 2014 کے بعد وزیر بنائے جانے کا چرچہ عام تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ 2016 میں کیرانہ اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ان کے بھتیجے انل چوہان کو ناحید حسن نے شکست دی اور اس کے بعد 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ایک بار پھر ناحید حسن نے انل چوہان کو بری طرح ہرایا۔ کیرانہ لوک سبھا سیٹ پر 2014 کے بعد سے حکم سنگھ کا کوئی حامی امیدوار جیت حاصل نہیں کر پایا۔

گزشتہ دنوں حکم سنگھ ہندؤں کی مبینہ نقل مکانی اور دوسرے فرقہ وارانہ مدوں کو لے کر بحث میں رہے جس کی وجہ سے ان کی حمایت میں رہا سیکولر ووٹر دور چلا گیا۔

حالیہ از سر نو حد بندی کے بعد سہارنپور ضلع کے دو اسمبلی حلقہ نکوڑ اور گنگوہ بھی کیرانہ لوک سبھا سیٹ میں شامل ہو گئے ہیں۔ گنگوہ کانگریس کے رہنما عمران مسعود کا آبائی علاقہ ہے جبکہ نکوڑ سے وہ الیکشن لڑتے ہیں، لہذا ان دونوں علاقوں پر ان کا کافی اثر ہے۔ یہ دیگر بات ہے ان دونوں اسمبلی حلقوں سے موجودہ ارکان اسمبلی پردیپ چودھری اور دھرم سنگھ سینی ہیں جوکہ بی جے پی سے ہیں ۔لیکن مسعود خاندان یقینی طور پر ان دونوں نشستوں کو متاثر کرتے ہیں۔ پچھلی بار سیکولر ووٹوں کا بٹوارہ ہو گیا تھا لیکن اس بار ماحول جدا ہوگا۔

کیرانہ ایک گوجر اکثریتی علاقہ ہے، یہاں گوجرطبقہ کے تقریباً 3 لاکھ افراد رہتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ تمام گوجروں میں سے نصف مسلم گوجر ہیں۔

آنجہانی منور حسن ’گوجر -گوجر ایک سمان ہندو ہو یا مسلمان‘نعرہ دے چکے ہیں۔ منور حسن ہندوستان کے چاروں ایوانوں کی نمائندگی کرنے والے پہلے رہنما ہیں اور جس کے لئے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے حکم سنگھ ان گوجروں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں منور حسن کی اہلیہ تبسم نے حکم سنگھ کو شکست دی تھی۔ اس سے پہلے منور حسن یہاں سے رکن پارلیمنٹ تھے جن کا ایک سڑک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔

کیرانہ سے اب بی جے پی سے حکم سنگھ کی بیٹی مرگاَنکا سنگھ کو انتخاب لڑانے کی بات ہو رہی ہے اگر ایسا نہیں ہوتا ہےتو بی جے پی کی شکست اور آسان ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس لوک سبھا سیٹ پر 40 فیصد مسلم ووٹر موجود ہیں ۔ دلت، جاٹ اور سیکولر ووٹوں کے متحد ہونے کے بعدبی جے پی کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔

ایک خاص بات یہ ہے کہ کیرانہ میں حکم سنگھ کے رہتے کوئی بڑا بی جے پی رہنما ابھر نہیں پایا۔ یو پی حکومت میں وزیر سریش رانا اسی لوک سبھا کے ایک دیگر اسمبلی حلقہ تھانہ بھون سے رکن اسمبلی ہیں ۔ یہاں ان سے قریبی مقابلہ میں ہارنے والے سابق رکن اسمبلی راؤ وارث کا کہنا ہے کہ ’’عوام میں بی جے پی حکومت کے خلاف غصہ ہے اور اعدادوشمار ہی نہیں بی جے پی زمین پر بھی یکطرفہ طور پر ہار جائے گی۔‘‘

کیرانہ کے نوجوان پرویش گوجر کا کہنا ہے ’’بی جے پی کے رہنماؤں نے تمام طرح کے جھوٹ پھیلانے کے بعد سب سے بڑا گناہ دو بھائیوں کو تقسیم کر کے کیا ہے۔ ہمارے یہاں گوجر کبھی خود کو ہندو مسلمان نہیں سمجھتا تھا لیکن 2014 میں انہوں نے سازش کے بیج بو دئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم بابو جی (حکم سنگھ) کی بہت عزت کرتے تھے لیکن اب ہم نفرت کے حامیوں کے ساتھ نہیں جاسکتے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Mar 2018, 6:11 PM