مدھیہ پردیش: بی جے پی کے سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے لگے!

مدھیہ پردیش میں انتخابی بازی مارنے کی ہڑبڑاہٹ نے بی جے پی کو اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارنے پر مجبور کر دیا۔

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

ہندو جیوتش شاستر میں 'راہو، کیتو' کا خوب ذکر رہتا ہے۔ ہندوی اساطیری کہانی کے مطابق بھگوان وشنو نے جب دیوتاؤں کو امرت پلانا شروع کیا تو ایک راکشش نے بھی دھوکے سے امرت پی لیا۔ بھگوان وشنو نے ناراض ہو کر اس کا سر دھڑ سے جدا کر دیا جس میں سے ایک حصہ 'راہو' اور دوسرا 'کیتو' بن گیا۔ بعد میں یہ دونوں سورج و چاند پر گہن لگانے والے گرہ (ستارے) بن گئے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حالت زار اور وزیر داخلہ امت شاہ کی بے بسی کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ 'راہو، کیتو' کا یہ گہن اب بی جے پی پر لگ چکا ہے۔ یوں بھی راہو-کیتو کی جائے پیدائش مدھیہ پردیش ہی بتائی جاتی ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنی ہی ریاست میں دیش کی سب سے بڑی پارٹی کو نشانہ بنا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ بی جے پی سے سخت ناراض ہیں۔

مدھیہ پردیش کا اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی نے قبل از وقت ماسٹر اسٹروک کھیلتے ہوئے اپنے 39 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ ان میں زیادہ تر وہ نام ہیں جنہیں پٹے ہوئے مہرے کہا جا سکتا ہے۔ یعنی گزشتہ الیکشن میں وہ کانگریس کے امیدواروں سے ہارے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹکٹوں کی اس تقسیم نے جیوترادتیہ سندھیا کے ساتھ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں جانے والوں کو شدید مایوس کر دیا ہے کیونکہ ایسے بہت سے لوگوں کو ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا۔ ٹکٹوں کی اس تقسیم میں گو کہ سندھیا گروپ کے سر پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر لوگوں میں یہ پیغام گیا ہے کہ سندھیا گروپ کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر گوہدا سمبلی سیٹ سے رنبیر سنگھ جاٹو کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، جس نے سندھیا گروپ میں بغاوت کی کیفیت پیدا کر دی۔


اب حالت یہ ہے کہ سندھیا گروپ کے وہ لوگ جو کانگریس چھوڑ کر بی جے میں شامل ہوئے تھے، وہ دوبارہ کانگریس میں شامل ہونے کا موقع تلاش رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب سمندر پٹیل ہیں جو نیمچ ضلع کے جاود سے ممبر اسمبلی ہیں۔ انہیں سندھیا کا لیفٹیننٹ کہا جاتا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو انہوں نے 1200 گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ اپنے اسمبلی حلقے سے بھوپال جا کر پہلے بی جے پی سے مستعفی ہوئے، اس کے بعد اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ ان سے قبل جون مہینے میں شیوپوری سے سندھیا گروپ کے بی جے پی لیڈر بیج ناتھ سنگھ یادو نے سندھیا اور بی جے پی سے اپنا تعلق ختم کرتے ہوئے 700 کاروں کے قافلے کے ساتھ بھوپال جا کر کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ ان کے علاوہ شیوپوری سے ہی ایک اور سندھیا حمایتی راکیش کمار گپتا بھی اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔

مدھیہ پردیش میں اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے کے دو روز بعد جب امت شاہ صاحب اپنی سیاسی بساط بچھانے مدھیہ پردیش گئے تو اس وقت تک راہو-کیتو ان کی پوری چانکیائی نیتی کو گرہن لگا چکے تھے۔ رنبیر سنگھ جاٹو کو ٹکٹ نہ ملنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مہاراج یعنی جیوترادتیہ سندھیا صاحب اپنے گروپ کے لوگوں کو سنبھالا دیتے، مگر انہوں نے بھی ہاتھ اوپر اٹھا لیے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ پارٹی میں کوئی گروپ یا کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہے، پارٹی جس کو چاہے گی ٹکٹ دے گی۔ اب بھلا مہاراج جی سے کون پوچھے کہ جب پارٹی میں کوئی گروپ نہیں تھا تو پھر آپ ابھی تک کس گروپ کی سیاست کر رہے تھے اور کس وجہ سے آپ کو راجیہ سبھا کی رکنیت و مرکزی وزارت ملی ہے؟ اگر پارٹی ہی جس کو چاہے گی ٹکٹ دے گی، اس میں آپ کا کوئی رول نہیں ہوگا تو پھر رنبیر جاٹو کیوں یہ اعلان کرتے گھوم رہے ہیں کہ آپ نے اسے ٹکٹ دلانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن پارٹی ہائی کمان نے آپ کی بات نہیں مانی؟


مدھیہ پردیش میں شیوراج ماما کی بدعنوان حکومت اور بی جے پی کی آپسی سر پھٹول کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ جب امت شاہ سے یہ پوچھا گیا کہ بی جے پی کتنی سیٹیں جیتے گی؟ تو انہیں کہنا پڑ گیا کہ یہ تو کوئی جیوتشی ہی بتا سکتا ہے۔ کمال ہے شاہ صاحب! یہ آپ ہی تھے جو گجرات سے لے کر کرناٹک تک یوپی سے لے کر بنگال تک ہر جگہ یہ پیشین گوئی کرتے نہیں تھکتے تھے کہ بی جے پی کتنی سیٹیں جیتے گی۔ لیکن مدھیہ پردیش کی پیشین گوئی کو آپ جیوتشی کے سر ڈال رہے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے موٹا بھائی کہ سندھیا کے راہو اور شیوراج ماما کی بدعنوانی کے کیتو نے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی جیت کی امید پر گہن لگایا ہے؟ اسی وجہ سے آپ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ یہ بتا سکیں یا اس کا اندازہ ہی لگا سکیں کہ مدھیہ پردیش میں کیا ہونے والا ہے؟ اسے تو مقابلے سے قبل ہی شکست تسلیم کر لینا کہتے ہیں کہ اپنی کامیابی کا یقین ہی نہ ہو۔ مدھیہ پردیش میں میں قبل از وقت امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر کے بی جے پی نے یہ سوچا کہ وہ کانگریس کو چت کر دے گی، لیکن اس کے بعد کے حالات بی جے پی کے لیے سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق ہو گئے۔

شاہ صاحب کے ذریعے سیٹوں کی جیت کی پیشین گوئی پر خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں اپنی توقع سے بہت کم سیٹیں ملنے کی امید ہو۔ یعنی توقع کی جا رہی ہو ڈیڑھ سو سے زائد سیٹیں جیتنے کی لیکن زمینی حالات سو کے اندر ہی سمٹ رہے ہیں۔ ایسی ہی کچھ حالت کرناٹک کی بھی رہی جہاں شاہ صاحب نہ صرف حکومت بنا رہے تھے بلکہ اکثریت کے ساتھ بنا رہے تھے۔ مگر جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ تلوار کے ساتھ میان بھی ٹوٹ چکی تھی۔ اس الیکشن میں لوگوں نے بی جے پی کو ہی نہیں ہرایا تھا بلکہ ریاستی حکومت کی مشینری، مرکزی حکومت، مرکزی ایجنسیاں، الیکشن کمیشن اور قومی میڈیا سمیت ان تمام فیکٹر کو شکست دیا تھا جو کسی نہ کسی طور پر مودی و شاہ کی تشہیر کر رہے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ عوام بی جے پی کی اقتدار کی ہوس اور اس کے غرور سے عاجز آ چکی ہے۔ مدھیہ پریش میں بھی آپریشن لوٹس سے ایک منتخب حکومت گرائی گئی تھی جس نے وہاں کی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بی جے پی رائے عامہ کی غاصب ہے۔ اس لیے بعید نہیں کہ مدھیہ پردیش کا نتیجہ بھی کرناٹک کی ہی مانند آ جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔