ای وی ایم پر شبہ تو بی جے پی کو تھا! (آشیش رے کا مضمون)

الیکشن کمیشن کا ای وی ایم کے پوری طرح ’ٹیمپر پروف‘ ہونے والا بیان غیر سائنسی ہے، لیکن بھروسہ جیتنے کے لیے اسے ہی ثابت کرنا ہے کہ مشینوں میں کسی بھی طرح کی ہیرا پھیری ممکن نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آشیش رے

جرمن فیڈرل کانسٹی ٹیوشنل کورٹ نے 2009 میں فیصلہ سنایا تھا کہ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین اس لیے بھی غیر آئینی ہے کیونکہ اوسط شہری سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعہ ووٹوں کی ریکارڈنگ اور ملان میں استعمال ہونے والے درست اقدام کو سمجھنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔‘ تکنیکی طور سے دنیا کے سب سے مضبوط ممالک میں سے ایک جرمنی نے اس تاریخی فیصلے کے بعد ای وی ایم کا استعمال بند کر دیا۔ کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے سامنے عرضی داخل کرنے والے ماہر طبیعیات اور سافٹ ویئر انجینئر ڈاکٹر اُلرچ وِسنر کا کہنا تھا ’’آنے والے سالوں میں ہم دیکھیں گے کہ خاص طور سے مطلق العنان ممالک الیکٹرانک الیکشن کی ’صلاحیت‘ کا کیسا استعمال کرتے ہیں۔ الیکٹرانک الیکشن حاکموں کو بلاواسطہ طور سے انتخابی نتائج کو اتفاق پر چھوڑے بغیر جمہوری (آئی سی) انتخاب کرنے میں مددگار ہوں گے۔‘‘

ویسنر نے مجھے بتایا کہ ان کی فکر اور عدالت میں ان کی درخواست 1930 اور 1940 کی دہائی میں جرمنی کے خوفناک تجربہ سے پیدا ہوئی تھی، جب ایڈالف ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے بالغ ووٹنگ رائٹس کے ذریعہ سے فاشسٹ تاناشاہی کو قائم کیا تھا۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں ’’ہندوستانی انتخابی کمیشن دعویٰ کرتا ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں ہیرا پھیری ممکن نہیں ہے... اب یہ جنرل نالج کی بات ہے کہ جس کے پاس ان مشینوں کو کھولنے اور سافٹ ویئر یا ہارڈویئر بدلنے کی پہنچ ہے، وہ کیسی بھی صلاحیت اس میں لاگو کر سکتا ہے اور جس میں ووٹوں کی چوری بھی شامل ہے۔ یہ کچھ خاص حالات میں ہی سرگرم ہوتا ہے اور جانچ میں عموماً سامنے نہیں آتا۔‘‘


فرانس، بلجیم، آئرلینڈ اور نیدرلینڈ تو استعمال کے بعد ای وی ایم ہٹا چکے ہیں۔ ایشیا براعظم کے سب سے مضبوط (تکنیکی طور پر) ممالک میں جاپان اور سنگاپور بیلٹ پیپرس پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ اب تو بنگلہ دیش نے بھی ای وی ایم کو ہٹا دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سنہ 2000 اور 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں فاتحین کے حق میں غیر قانونی طریقے اختیار کیے گئے تھے۔ حالانکہ امریکہ میں ای وی ایم استعمال نہیں کیا جاتا، لیکن امریکہ واقع ویریفائیڈ فاؤنڈیشن (وی وی ایف) کے ذریعہ شائع کئی ممالک کے 1000 سے زائد ماہرین کی طرف سے پاس تجویز کے مطابق ’کھلے پن اور شفافیت کے بغیر انتخابی ایمانداری یقینی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ووٹر-سرٹیفکیشن لائق بیلٹ پیپرس کے بغیر الیکشن کھلا اور شفاف نہیں ہو سکتا۔ ووٹرس کے پاس جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ آخر ووٹ وہیں گیا جہاں اس نے دیا، اور نہ ہی امیدوار یا دیگر لوگ ووٹنگ یا ووٹ شماری کا عمل دیکھ کر انتخاب کے درست یا صاف ستھرا ہونے کا یقین کر سکتے ہیں۔ ان مشینوں کے ساتھ ووٹ ریکارڈ کرنے یا انتخابی دھاندلی کی حالت میں خامیوں کا پتہ لگانے کا کوئی قابل اعتبار طریقہ نہیں ہے۔ اس لیے ان مشینوں کے استعمال سے کیے گئے کسی بھی انتخاب کے نتائج سوالوں کے گھیرے میں رہیں گے ہی۔‘


2010 میں بی جے پی کے راجیہ سبھا رکن جی وی ایل نرسمہا راؤ نے کتاب لکھی ’ڈیموکریسی ایٹ رِسک‘، جس کی ضمنی سرخی تھی ’کیا ہم اپنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟‘ کتاب ہندوستانی شہریوں کو وقف تھی کہ ’’وہ پوری طرح سے شفاف اور قابل تصدیق انتخابی نظام کے حقدار ہیں۔‘‘ کتاب کی تمہید بی جے پی کے صدر رہے اٹل بہاری واجپی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت میں نائب وزیر اعظم اور 2009 میں پارٹی کے لیے وزیر اعظم عہدہ کے امیدوار لال کرشن اڈوانی نے لکھی۔ انھوں نے لکھا ’’میں نجی طور سے اس بات کا احترام کرتا ہوں کہ تکنیکی طور پر دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک جرمنی ای وی ایم کو لے کر اتنا محتاط ہے کہ اس کے استعمال پر پوری طرح روک ہی لگا دی۔‘‘

ایک دیگر پیغام اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ڈیوڈ ڈِل کا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ای وی ایم الیکشن کے دوران یا بعد میں ایسا کوئی ثبوت نہیں دیتا جس سے کسی کشمکش میں مبتلا انسان کو یقین دلایا جا سکے کہ انتخابی نتائج درست ہی ہیں۔‘‘ پروفیسر ڈِل نے 8 جون 2019 کو مجھے ای میل کیا، جس میں لکھا ’’جب بھی کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ سسٹم ’اَن ہیکیبل‘ ہے، تو مجھے سب سے پہلے اس کی صلاحیت پر شبہ ہوتا ہے۔ سیکورٹی سے جڑے اہل لوگ ایسا دعویٰ کرنے کے تئیں کافی محتاط رہتے ہیں۔‘‘ ان کا سوال تھا کہ کیا ہندوستانی انتخابی کمیشن نے ’مشینوں کے ڈیزائن پبلک کیے؟ کیا سیکورٹی کا آزادانہ تجزیہ ہوا؟ کیا ان تجزیات کے نتائج شائع ہوئے؟ سب کا جواب منفی تھا۔


راؤ کی دلیل تھی کہ ’’ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں مشینوں نے امیدواروں کے درمیان ووٹ ’سوئچ‘ کیے اور ایسے ووٹ بھی ’ریکارڈ‘ کیے جو کبھی ڈالے ہی نہیں گئے تھے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اتنا ہی نہیں کہ ہمارے ای وی ایم، دنیا کی کسی بھی دیگر مشین کی طرح، باہری ہیکروں کے ذریعہ کیسی بھی چھیڑ چھاڑ کے لیے مائل ہیں بلکہ زیادہ ہی خطرناک ہیں جس سے انتخابی کمیشن برابر انکار کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا ’انسائیڈر فراڈ‘ ہے جو مشینوں تک رسائی رکھنے والے ہزاروں ’مقرر‘ اہلکاروں میں سے ہی کوئی انجام دے گا۔‘‘ راؤ نے زور دے کر ’اس پاکیزہ طاقت کے ووٹنگ عمل میں دھوکہ دہی کے لیے کھلا چھوڑ دینے‘ کے تئیں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’صاف ہے کہ اس سے ہماری جمہوریت سنگین طور سے خطرے مین ہے۔‘‘

حالانکہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے راؤ اس ایشو پر پوری طرح خاموش ہیں۔ 19 مئی 2020 کو میں نے انھیں ای میل کر کے پوچھا کہ کیا وہ اپنی کتاب میں کہی گئی باتوں پر قائم ہیں؟ ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔


ہندوستانی ووٹرس کا بڑا طبقہ ای وی ایم کی خامیوں سے انجان ہے۔ ہندوستانی میڈیا بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں پوری طرح ناکام رہا ہے۔ اور عدلیہ نے بھی یا تو سرگرم کردار والی پالیسی اختیار نہیں کی، یا پھر بیدار شہریوں کی فکر کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ کمیشن کا ای وی ایم کے پوری طرح ’ٹیمپر پروف‘ ہونے والا بیان بھی غیر سائنسی اور کہیں ٹکنے والا نہیں ہے۔ اب بھروسہ جیتنے کے لیے اسے ہی ثابت کرنا ہے کہ مشینوں میں کسی بھی طرح کی ہیرا پھیری ممکن نہیں ہے۔

’ثبوت پر مبنی انتخاب‘ مہم سے جڑے کیلیفورنیا یونیورسٹی، برکلے کے پروفیسر فلپ اسٹارک نے 2021 میں ہم سے کہا تھا کہ ای وی ایم ’غیر محفوظ‘ ہیں اور یہ بھی کہ اس کے ساتھ جن وی وی پیٹ کا استعمال 2019 میں شروع ہوا ہے، وہ بھروسہ مند نہیں ہیں۔ اسٹارک نے صاف کیا کہ بھلے ہی ای وی ایم انٹرنیٹ سے نہ جڑا ہو، امیدواروں اور پارٹیوں کے بارے میں ان کی میموری میں درج ڈاٹا اور جانکاری لوڈ کرنے میں استعمال ہونے والے سامانوں کا استعمال بَگ اور مالویئر پلانٹ کرنے میں اہل ہے۔ ایک ہارڈ کاپی رکھنے کے ساتھ نشان لگے بیلٹ پیپرس کو جدید اسکینر-کم-ٹیبولیٹر میں ڈالنے کا پروفیسر اسٹارک کا مشورہ ایک محفوظ اور سمجھداری بھرا حل ہے۔


27 جنوری 2022 کو ہندوستانی انتخابی کمیشن نے سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کے چیف الیکٹورل افسران کو ہندوستان میں تعینات سبھی وی وی پیٹ کے 37 فیصد مشینیں واپس لینے کے لیے لکھا۔ انھیں صلاح دی گئی کہ وی وی پیٹ کو ای وی ایم مینجمنٹ سسٹم میں ’خراب‘ بتا کر نشان زد کریں اور ان کے مینوفیکچررس کو واپس بھیج دیں۔ حالانکہ سرکلر میڈیا میں آنے کے بعد کمیشن نے وی وی پیٹ میں خامی سے انکار کیا اور کہا کہ انھیں تو ’کیوریٹو رکھ رکھاؤ‘ کی ضرورت تھی۔ روک تھام یا علاج کی ضرورت تبھی ہوتی ہے جب کوئی خطرہ سامنے ہو۔ بات یہ ہے کہ یہی مشینیں 2019 اور 2021 کے درمیان ہندوستان کے قومی اور ریاستی انتخابات کی بنیاد بنیں۔ ایسے میں کیا کمیشن ثابت کر سکتا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج پوری طرح درست تھے؟

سوال اٹھتا ہے: کیا حال ہی میں اختتام پذیر کرناٹک انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی؟ جیسا کہ سب کو پتہ ہے، ووٹنگ کا مینجمنٹ ریاست کی نوکرشاہی اور پولیس کرتی ہے۔ مان لیں کہ مداخلت کی کوشش ریموٹ کے طور پر ہی ہو، تب بھی کمیشن، سول سروینٹس اور نظامِ قانون نافذ کرنے والوں کو یا تو پوری طرح سے انجان یا کم از کم جزوی طور سے ہی سہی، شراکت داری ضروری ہوگی۔ اور اس پر تبھی بھروسہ کیا جا سکتا ہے جب مرکز اور ریاست میں انتظامیہ خراب ارادوں والی ایک ہی پارٹی کے ہاتھوں میں ہو اور اسے کچھ الیکٹورل افسران، سرکاری ملازمین اور پولیس اہلکاروں کی حمایت حاصل ہو۔ دوسرے لفظوں میں ’ڈبل انجن‘ والی حالت، جس میں سرکاری ملازمین اور پولیس والے اپنے سیاسی آقاؤں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ میں ہوتے ہیں۔ کرناٹک میں شاید یہ وجود میں نہیں تھا، کیونکہ وہاں برسراقتدار نظام ایسے کارکنان کے بھروسے سے محروم ہو چکی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔