ہندوستانی شہریوں کو بیرونی ثابت کرنے کی سازش

آسام کی بی جے پی حکومت نہ صرف ہندوستانی شہریوں کو بیرونی ثابت کرنے پر آمادہ ہے بلکہ اس ٹریبونل کے ارکان کو بھی برخاست کر رہی ہے جس نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مبینہ بیرونی در اصل ہندوستانی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

امن ودود

محمد اجمل حق 30 سال تک ہندوستانی فوج میں کام کرتے رہے۔ گزشتہ سال یعنی ستمبر 2016 میں وہ جونیر کمیشن آفیسر (جے سی او ) کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں لیکن پچھلے مہینے انہیں بیرونی ٹربیونل سے ایک نوٹس بھیجا گیا جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ 1971 میں غیر قانونی طریقہ سے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ نوٹس میں انہیں 13 اکتوبر 2017 کو اپنے تمام دستاویزات کے ساتھ ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔

اجمل حق اس سب سے بے حد پریشان ہیں اور ان کو غصہ بھی آ رہا ہے۔ ان کے دادا اور دادی ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے اور ان کی پیدائش بھی 1968 میں آسام کے ضلع کامروپ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے 30 سال تک ہندوستانی فوج میں اپنی خدمات انجام دیں۔

اس سے قبل اسی طرح کے نوٹس ان کی اہلیہ اور اہلیہ کی بہن کو بھی مل چکے ہیں ۔ ان لوگوں پر بھی ٹریبونل نے بیرونی ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان دونوں کو ٹربیونل کےسامنے پیش ہو کر اپنی شہریت کو ثابت کرنا پڑا۔

اسی طرح حال ہی میں آسام پولس کے کانسٹیبل ابو طاہر احمد کو بھی نوٹس بھیجا گیا تھا۔ اجمل حق کی طرح ہی ابو طاہر کے دادا اور دادی کی بھی پیدائش ہندوستان میں ہوئی تھی۔ گزشتہ 21 ستمبر 2017 کو ٹریبونل نے ابو طاہر کو ہندوستانی شہری قرار دے دیا ہے ۔

لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی ، آسام اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر مولوی محمد امیر االدین کے کنبہ کے 11 ارکان پر بھی غیر قانونی تارکین وطن ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ مولوی محمد امیر الدین 1937 اور 1946 کے درمیان آسام اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے لیکن ان کے خاندان کے 11 ارکان کا معاملہ سرحدی پولس نے بیرونی ٹریبونل کے پاس بھیجا ہے۔

ٹریبونل نوٹس کیوں بھیجتا ہے؟

ملک کے الیکشن کمیشن نے 1997 میں ووٹر لسٹ کی گہرائی سے جانچ پڑتال کی ۔ اس جانچ کے بعد انتخابی کمیشن کو جس بھی ووٹر کے دستاویزات میں کمی نظر آئی ان سب کو ’ڈاؤٹ فل‘ یعنی مشتبہ کے زمرے میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد ’ڈی‘ زمرے کے ووٹروں کا حق رائے دہی ختم کر دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں ایسے سبھی ووٹروں کو عوامی نظام ترسیل سے بھی الگ کر دیا گیا۔ یعنی ان کے راشن کارڈ بھی ختم کر دیئے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پورے عمل میں انتخابی کمیشن نے شہریوں کو منمانے اور اندھا دھند طریقہ سے ’ڈی‘ زمرے میں ڈال دیا۔ ایسا کرنے سے پہلے نہ تو کسی قسم کی جانچ کی گئی اور نہ ہی ان ووٹروں سے کوئی پوچھ گچھ ہی کی گئی۔

ووٹر لسٹ میں ’ڈی ‘ زمرے سے اپنا نام ہٹوانے کے لئے شہریوں کے پاس بیرونی ٹریبونل کے پاس جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہا۔ اور ٹریبونل باقاعدہ مقدمہ اور سماعت جیسے عمل اختیار کر کے ایسا کرتا ہے۔ ادھر انتخابی کمیشن نے ڈی زمرے کے ووٹروں کی لسٹ تمام اضلاع کے پولس سپرنٹنڈنٹ (سرحدی) کو بھیج دی سرحدی پولس نے اس لسٹ کو بیرونی ٹریبونل کے پاس بھیج کر ایسے ووٹروں پر اپنی رائے طلب کی۔

لسٹ ملنے کے بعد ٹریبونل نے ایسے تمام لوگوں کو نوٹس بھیج کر اپنے تمام دستاویزات کے ساتھ پیش ہو کر اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا۔ اچھی بات یہ رہی کہ ’ڈی ‘ زمرے کے زیادہ تر ایسے ووٹرجو ٹریبونل کے سامنے پیش ہوئے انہوں نے اپنی ہندوستانی شہریت کو ثابت کیا ہے۔

دراصل آسام سرحدی پولس تنظیم (اے بی پی او ) کی آسام کے تمام تھانوں میں موجودگی ہے جس کا کام اپنے دائرہ اختیار کا سروے کرنا ہے۔ اسے اگر کسی غیرقانونی تارکین وطن کے بارے میں خبر ملتی ہے یا شک ہوتا ہو تو یہ اس سے شہریت کے دستاویز طلب کر سکتی ہے اور اس کے لئے معقول وقت بھی دینا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شہری طے شدہ وقت میں اپنی شہریت کے دستاویزات پیش نہیں کر پاتا تو سرحدی پولس ایسے معاملات کو بیرونی ٹریبونل کے پا س بھیج دیتی ہے۔

لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سرحدی پولس ووٹر لسٹ میں سے کسی کا بھی نام بغیر کسی سروے یا پڑتال کئے ہوئے اٹھاکر کر اسے غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے رہی ہے۔ سرحدی پولس اپنی رپورٹ میں صرف اتنا لکھ دیتی ہے کہ اس نے متعلقہ شخص سے رابطہ کیا اور وہ اپنی شہریت کے دستاویزات پیش نہیں کر پایا۔ زیادہ تر معاملات میں سرحدی پولس غریب اور نا خواندہ لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یومیہ مزدور ، رکشہ پولر یہاں تک کہ بھکاری بھی شامل ہیں۔ سرحدی پولس ان لوگوں سے سادے کاغذ پر انگوٹھا لگواتی ہے اور کیس بنا کر انہیں غیر قانونی طور پر مقیم قرار دیتے ہوئے معاملہ کو بیرونی ٹریبونل کے پاس بھیج رہی ہے۔

سرحدی پولس کی اس کارگزاری کے شکار بہت سے لوگوں کا الزام ہے کہ پولس اہلکار ان سے رشوت مانگتے ہیں اور رشوت نہ دیئے جانے پر انہیں بیرونی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں جہاں دو فریقین میں جھگڑے یا تنازعہ کے بعد ایک فریق نے سرحدی پولس کو رشوت دے کر دوسرے فریق کو بیرونی ٹھہرا دیا ہو۔

بیرونی ٹریبونل کی معتبریت فارنرس ایکٹ 1946 سے ہے۔ یہ قانون آزادی ملنے اور آئین بننے سے قبل کا ہے۔ اس قانون کے تحت خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی ساری ذمہ داری ملزم پر ہے۔

جب آپ سرحدی پولس کے افسران سے تنہائی میں پوچھتے ہیں کہ آخر وہ ہندوستانی شہریوں کو غیر قانونی تارکین وطن بنانے پر کیوں آمادہ ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ان پر اوپر سے دباؤ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں پھنسایا جائے۔ یہاں تک کہ ہر تھانے کو ہر مہینے 5 سے 20 کیس تک بیرونی ٹریبونل کو بھیجنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

کئی معاملات میں تو جن دستاویزات کی بنیاد پر کسی کی شہریت ثابت ہوتی ہے، بعد میں انھی دستاویزوں کی بنیاد پر اسے غیر قانونی طریقے سے مقیم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بہاراور اتر پردیش کے لوگوں کو بیرونی یا بنگلہ دیشی قرار دیا جا رہے ۔

بی جے پی حکومت آنے کے بعد کیا تبدیلی آئی؟

در اصل ہندوستانی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر ہی بی جے پی اقتدار کی کرسی تک پہنچی ہے۔ انتخابی تشہیر کے دوران سب سے زیادہ ریلیاں کرنے والے ہیمنت بسوا سرما نے سر عام کہا تھا کہ 35 نشستیں ایسی ہیں جہاں بنگلہ دیشی اکثریت میں ہیں جبکہ ہندوستانی اقلیت میں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سیٹوں پر بنگلہ دیشی نہیں بلکہ مسلمان اکثریت میں ہیں۔ بی جے پی کی اسی غلط تشہیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی کو انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی۔

بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد وزیر اعلیٰ سروانند سونووال نے بیرونی ٹریبونل کے ارکان سے ملاقات کی اور کہا کہ ان کے پاس قومی مفاد میں کام کرنے کا سنہرا موقع ہے اور اس سے چوکنا نہیں چاہئے۔ یہاں دھیان دینے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا ایک قانونی ادارے سے ملنا اور انہیں ہدایات دینا آئین کی دفعہ 50 کی خلاف ورزی ہے۔

اتنا ہی نہیں 21 جون 2007 کو آسام کی بی جے پی حکومت نے ٹریبونل کے 19 ارکان کو برخاست کر دیا۔ ان سبھی پر گزشتہ دو سال کے دوران ناقص کارکردگی کا الزام لگایا گیا۔ اس کے علاوہ وزارت داخلہ نے 15 ارکان کو کارکردگی میں بہتری اور طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے متنبہ بھی کیا۔

در اصل گزشتہ تقریباً 2 سال میں ٹریبونل نےتقریباً 40 ہزار ایسے احکامات جاری کئے جن میں ’ڈی ‘ زمرے کے ووٹروں کو ہندوستانی شہری قرار دیتے ہوئے ’بیرونی نہیں‘ کی سند جاری کی گئی۔ بی جے پی حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ ٹریبونل سرحدی پولس کی رپورٹ پر سنجیدگی سے کام نہیں کر رہی ہے۔ اسی بنیاد پر 19 ایسے ارکان کو برخاست کر دیا گیا جو ضابطے کے مطابق اور ایمانداری سے کام کر رہے تھے۔ ان تمام ارکان نے اپنی برخاستگی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس میں انہوں نے دستاویزی ثبوت لگائے ہیں کہ وہ سب ایمانداری اور ضابطے کے مطابق کام کررہے تھے۔

بی جے پی حکومت نے ریاست اور ضلع سطح پر اسکریننگ کمیٹیاں بھی قائم کر دی ہیں جن کا کام ایسے لوگوں کے معاملات کو نئے سرے سے دیکھنا ہے جنہیں ٹریبونل نے ’بیرونی نہیں‘ ہونے کی سند فراہم کی ہے یا پھر جن کے معاملات پولس کی مبینہ رپورٹ کے بر خلاف پائے گئے ہیں۔ حکومت نے ایسے تقریباً 100 معاملات کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے۔

اس پورے عمل میں ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر ٹریبونل بڑی تعداد میں لوگوں کو ’بیرونی نہیں‘ ہونے کی اسناد فراہم کر رہا ہے تو پولس نے ان لوگوں کو جھوٹے معاملہ میں پھنسایا ہے۔ عام طور پر ایسا ہونے پر حکومت پولس کی کھنچائی کر تی ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے بر عکس دکھائی دیتا ہے اور جیوڈیشل افسروں کو ہی برخاست کیا جا رہا ہے۔

ایسے میں محمد اجمل حق کا معاملہ حکومت اور جانچ ایجنسیوں دونوں کے لئےآنکھیں کھولنے والا ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ جانچ ایجنسیاں غیر قانونی طور پر مقیم بیرونی افراد کو پکڑیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس عمل میں حقیقی ہندوستانی شہریوں کا استحصال نہ ہو اور نہ ہی انہیں بیجا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

(مضمون نگار گوہاٹی کے وکیل ہیں اور ہندوستانی شہریوں کو قانونی صلاح دیتے ہیں)


اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔