بی جے پی کا فارمولہ : جیتے تو’جے جے‘ اور ہارے تو’ہائے ہائے‘

اگر رام مندر بنا تو ہندوتوا کی جیت ہو گی، اگر نہیں بنا تو شکست خوردہ بی جے پی اکثریتی برادری ہندوؤں کو اپنی حمایت کے لئے مزید شدت کے ساتھ متحد ہونے کی اپیل کرے گی۔

ٹیلے والی مسجد
ٹیلے والی مسجد
user

نواب علی اختر

ملک کےبڑی آبادی والے صوبہ اترپردیش کے حوالے سے عام انتخابات سے قبل جن خدشات کا اندیشہ ظاہرکیا جارہا تھا، حالیہ دنوں میں کچھ ویسی ہی سرگرمیاں شروع کردی گئی ہیں۔ایودھیامیں رام مندرتعمیرکے وعدے کے ساتھ اقتدارپرپہنچی بھارتیہ جنتاپارٹی(بی جے پی) اوراس کی نظریاتی تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ(آرایس ایس)جہاں ریاست کے عوام کواپنی’وعدہ خلافی‘پربہانے بنانے کی تیاری میں تھے وہیں ریاست کی بھگوا برگیڈ نے ان دونوں کا کام آسان کردیا۔ایودھیا میں متنازعہ زمین پر رام مندر بنے یا نہ بنے، دونوں ہی حالات میں اس سے اگر کسی کو فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ بی جے پی ہے۔اگر رام مندر بنا تو ہندوتوا کی جیت ہو گی۔ اگر نہیں بنا تو شکست خوردہ اکثریتی برادری ہندوؤں کو بی جے پی کی حمایت کے لئے مزید شدت کے ساتھ متحد ہونے کی اپیل کرے گا۔ یعنی ’چت بھی میری اور پٹ بھی میری‘۔یہ ایک کامیاب فارمولہ ہے کہ اگر جیتے تو’جے جے‘ اور ہارے تو’ہائے ہائے‘۔ بہ الفاظ دیگر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کی ہانڈی ہمیشہ چولہے پر چڑھی رہے گی۔

اسی فارمولے کے تحت لکھنؤ میں بی جے پی کے بعض رہنماؤں نے ایک تاریخی مسجد کے سامنے چوک پر ہندو دیوتا اور رام کے بھائی لکشمن کا مجسمہ نصب کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اس تجویز پر مسجد کے امام نے اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد کے سامنے عید اور بقرعید کی نماز ہوتی ہے اور مسلمان کسی بت کے سامنے نماز نہیں پڑھ سکتے۔اس طرح اترپردیش بالخصوص لکھنؤ میں بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک بڑا اور فائدہ مند تنازع پیدا ہو چکا ہے۔ یہ جس قدر بڑھے گا اسی قدر ہندوتوا کے بیانیے کو تقویت ملے گی اور اقلیتی مسلمانوں کوبار باریہ احساس ہوتارہے گاکہ وہ شاید مساوی حقوق کے حامل شہری نہیں ہیں۔

بہر حال ٹیلے والی مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ انھیں لکشمن کے مجسمہ پر اعتراض نہیں ہے لیکن یہ مورتی مسجد کے بالکل سامنے نہیں لگنی چاہئے جبکہ بی جے پی سے منسلک رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مورتی وہیں لگائی جائے گی۔ ایسے میں اگر مجسمہ کہیں اور نصب ہوتا ہے تو تنازع کیسے پیدا ہوگا؟ اور اگر کوئی تنازع پیدا نہیں ہوگا تو ان سب کو فائدہ کیسے ہوگا؟۔یہ مختلف سیاسی ماسٹرا سٹروکس میں سے ایک ہے کیونکہ کانگریس، سماجوادی پارٹی اور یہاں تک کہ بی ایس پی بھی اگر اس نئے تنازعے میں پڑیں گی تو بی جے پی ان پر’ہندو مخالف‘ ہونے کا لیبل لگائے گی، اس طرح اس میں ایک بڑا سیاسی خطرہ ہے، اس لئے حالات کے پیش نظر بی جے پی مخالف خاموش ہی رہیں گے۔ویسے بھی حزب اختلاف کے پاس ہندو جذبات کی سیاست کی کوئی کاٹ نہیں ہے۔ وہ یا تو خاموش رہتے ہیں یا بی جے پی کے رہنماؤں کے ساتھ مندروں اور مٹھوں میں سر جھکانے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔

حزب اختلاف صرف حساب کتاب کے سہارے تصورات و عقائد کی لڑائی جیتنا چاہتا ہے جو کہ ممکن نہیں ہے۔نوجوان انڈیا کی ترقی کی ہرسیڑھی مستقبل کی طرف نہیں بلکہ شاندار ہندو ماضی کی طرف جا رہی ہے کیونکہ ملک کے نوجوانوں کا کام لکشمن کی مورتی سے چل جائے گا۔ لکھنؤ یونیورسٹی کی حالت کی بات تنازعات سے فرصت ملنے پر پھر کبھی کی جائے گی، کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ لکھنؤ دراصل لکھن پوری ہے۔ اس لئے یہاں لکشمن کا عظیم مجسمہ نصب ہونا چاہئے۔ مسجد کے سامنے اس لئے نصب ہوناچاہئے کیونکہ ٹیلے والی مسجد دراصل لکشمن ٹیلے پر بنائی گئی تھی ۔ بات ختم۔

اس تنازعے کے پس پشت پرانے لکھنؤ کے باشندے اور بی جے پی کے سینئرلیڈر لال جی ٹنڈن کی کتاب’ان کہا لکھنؤ‘ ہے جس میں انھوں نے مشترکہ ثقافت والے شہر پر ہندوؤں کا اساطیری دعویٰ مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔لال جی ٹنڈن کا دعویٰ ہے کہ بھگوان رام کے بھائی لکشمن شیش ناگ کے اوتار تھے۔ انھوں نے ہی شہر کی بنیاد رکھی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس کی مکمل تاریخ ہے۔لکھنؤ شہر کے نام کے متعلق بہت سی کہانیاں ہیں۔ کچھ لوگ ٹنڈن کی طرح اسے لکشمن سے منسلک کرتے ہیں جبکہ بعض 11 ویں صدی کے دلت بادشاہ لاکھن پاسی سے اس کا تعلق قائم کرتے ہیں، کچھ لوگ اسے ہندو دیوی لکشمی سے جوڑتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سولکشناپوری تھی یعنی خوش قسمت شہر۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتر پردیش کے موجودہ نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما دو سال پہلے لکھنؤ کے میئر تھے اور انھوں نے پاسی برادری کے ایک اجتماع میں مہاراجہ لاکھن پاسی کا مجسمہ لگوانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہی دینش شرما لکشمن کا مجسمہ نصب کرنے کا وعدہ بھی کریں گے۔اگرآپ سمجھناچاہیں توسمجھ سکتے ہیں کہ مورتیاں لگوانے کی باتیں علامات اوران سے منسلک جذبات کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، بی جے پی کے لئے اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو لکشمن کی مورتی لگانے پر اعتراض ہے لہذا ہندوؤں کو ان کے خلاف منظم ہونا چاہئے کیونکہ یہ اعتقاد کا سوال ہے۔اعتقاد کی سیاست میں یہ آسانیاں ہوتی ہیں کہ ان میں حقائق، دلائل اور قواعد و ضوابط کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہندوؤں کا ملک ہے، جیسا ہندو چاہیں گے ویسا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندو خوش ہوں گے اوراگر نہیں ہوتا ہے تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ دونوں صورتوں میں وہ ووٹ ایک ہندو کی طرح ہی دیں گے نہ کہ کسی جمہوری ملک کے شہری کی طرح، اس سے زیادہ بی جے پی کو اور کیا چاہئے؟۔

شری رام کے انوج لکشمن کااس ٹیلے سے کیاتعلق تھاجس پرمسجدبنائی گئی،کیااسے سچ میں لکشمن کاٹیلہ کہاجاتاتھا۔ان باتوں کے تاریخی، روایتی،ثقافتی اوردستاویزی ثبوت نہیں دیئے جارہے،لیکن جذبات توجذبات ہیں۔بعض تجزیہ کار سنہ 2005 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دے رہے ہیں جس میں کہاگیاکہ سڑکوں یا ایسی جگہ پرکوئی مورتی یا ہورڈنگ وغیرہ نہیں لگائے جاسکتے جس سے ٹریفک متاثر ہوتا ہو یاگاڑی چلانے والوں کی نظروں کے سامنے ان کادھیان بھٹکانے والی کوئی چیزآئے۔لیکن اعتقاد قوانین کے پابند تو ہوتے نہیں اور اگر جذبات مذہبی ہوں تو کیا ہی کہنے۔ بی جے پی کے رہنما پوچھ رہے ہیں کہ اگر لکشمن کا مجسمہ لکھنؤ میں نہیں لگے گا تو کہاں لگے گا؟۔اس کے علاوہ کئی ہندویہ پوچھ سکتے ہیں کہ لکشمن -رام کے ساتھ توپوجے جاتے ہیں،رام،لکشمن،جانکی اورہنومان کی مورتیاں ہرشہرکے مندروں میں ملیں گی، ہنومان مندرگلی گلی میں ہیں،لیکن لکشمن کہاں پوجے جاتے ہیں؟۔چوراہے پر اکیلے لکشمن کی مورتی لگانے کا کیا مطلب ہے؟اگراس اکیلی مورتی کی پوجاہوگی تواس پوجاکاطریقہ کیاہوگا؟ مثلاً کون سے منترپڑھے جائیں گے۔اگرلکشمن کی مورتی سردارپٹیل کی مورتی کی طرح ہے جس کی پوجانہیں ہوگی توپھریہ عقیدت کاسوال کیسے ہے؟ویسے سردارپٹیل کی مورتی جواسٹیچیوآف لبرٹی سے بڑی ہونے والی تھی ،کب لگے گی؟سوالوں کاکیاہے ۔

لکشمن کی مورتی کے معاملے میں بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح کے تنازعات ہندو لیڈر ساورکر اور بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے دلائل کو ثابت کرتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں وہ ایک ساتھ امن سے نہیں رہ سکتے۔ہندو راشٹر کے تصور کو اس دن ٹھوس منطقی بنیاد مل گئی جس دن پاکستان کا قیام عمل میں آیا ، لیکن گاندھی، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد جیسے لیڈروں کو لگا کہ اس انتقامی تصورات سے برابری، آزادی اور بھائی چارے والی جمہوریت کا اصول کہیں بڑا ہے۔برابری، آزادی اور بھائی چارے کے لئے ضروری ہے ملک کا نظام ایسا ہو جو مذہب کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے، یہ وہی اصول ہے جو بعض لیڈروں کے کاموں کے سبب بدنام سیکولرزم بن گیا۔اکثریتی ہندو عوام کو یہ سبق پڑھانا آسان ہو گیا کہ مسلمانوں کو برابر کا شہری ہونے کا حق نہیں ہے، کیوں یہ ضروری ہے کہ ہندوستان ہندو راشٹر بنے اور اکثریتی ہندو طے کریں کہ اقلیتی مسلمانوں کو اس ملک میں کس طرح رہنا ہے اور اب تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی پوچھنا شروع کیا ’تو اس میں کیا غلط ہے؟‘۔

ایسے جتنے بھی تنازعات ہوں گے اس میں چت بھی بی جے پی کی اورپٹ بھی بی جے پی کی اس لئے ایسے بہت سے تنازعات کے لئے تیاررہئے۔انتخابات نزدیک آرہے ہیں، اپوزیشن منھ دیکھنے کے علاوہ اس میں زیادہ کچھ کرنے کی حالت میں دکھائی نہیں دیتاہے۔ایسے میں صرف سمجھدار لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ عوامی جذبات اور عوامی دلچسپی میں دو مختلف چیزیں ہیں۔ لکشمن کا مجسمہ عوامی جذبات کا عکاس ہے تو ہینڈ پمپ عوامی مفاد کے لئے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔