ضمنی انتخاب: بی جے پی خیمہ پر خطرے کے بادل

علامتی تصویر، بشکریہ سوشل میڈیا
علامتی تصویر، بشکریہ سوشل میڈیا
user

منوج سنگھ

گورکھ پور لوک سبھا سیٹ پر ضمنی انتخاب میں پولنگ کی شرح کم رہی جس کے سبب بی جے پی کی پیشانی پر بل پڑ گئے ہیں۔ مخالف ووٹوں کے متحد ہو جانے کی وجہ سے پہلے ہی پریشان بی جے پی شہری علاقوں میں کم پولنگ ہونے کے بعد خطرے میں آ چکی ہے۔ گورکھ پور میں 47.75 فیصد پولنگ کی شرح درج کی گئی ہے جوکہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے 7.22 فیصد کم ہے ۔ گورکھ پور لوک سبھا کے گورکھ پور شہر اسمبلی حلقہ انتخاب میں صرف 37.7 فیصد پولنگ ہوا جبکہ 2014 کے انتخابات میں یہاں 48.80 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔

گورکھ پور لوک سبھا حلقہ انتخاب میں سب سے زیادہ 52 فیصد ووٹ پپرائچ اسمبلی حلقہ انتخاب میں ڈالے گئے۔ اس کے بعد سہنجواں کا مقام رہا جہاں 50.07 فیصد ووٹ ڈالے گئے ۔ کیمپیرگنج میں 49.43 اور گورکھ پور دیہات میں 45.74 پولنگ کی شرح درج کی گئی۔

اسمبلی وار سیٹوں پر پولنگ کی شرح کا جائزہ لیں تو سال 2014 کے لوک سبھا انتخاب کے بر عکس اس بار کیمپیر گنج اسمبلی حلقہ انتخاب میں 5.24 فیصد، پپرائچ میں 7.02 فیصد، گورکھ پور شہر میں 11.04 فیصد، گورکھ پور دیہات میں 6.24 فیصد اور سہنجواں میں 4.75 فیصد کم پولنگ درج کیا گیا۔

بی جے پی کی حکمت عملی تھی کہ شہری علاقوں میں زیادہ سے زیادہ پولنگ ہو، تا کہ وہاں سے فیصلہ کن سبقت حاصل کی جا سکے اور اگر دیہی علاقوں میں پیچھے بھی رہ جائیں پھر بھی جیت حاصل ہو سکے۔ اس حکمت عملی کا انکشاف خود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گورکھ پور میں تشہیر ختم ہونے کے ایک دن پہلے گورکھ پور کے ایک عوامی جلسہ سے کیا۔ انہوں نے بی جے پی کارکنان سے کہا کہ شہر اسمبلی حلقہ انتخاب میں شرح فیصد 60 کر دیں تو یہاں سے بی جے پی کو 2.5 لاکھ کی سبقت مل جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں ایک فیصد پولنگ بڑھنے سے بی جے پی کو حریف امیدوار سے 10 ہزار کی سبقت حاصل ہوتی ہے۔

گورکھ پور شہر میں 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں 48 فیصد پولنگ درج کیا گیا تھا۔ اس وقت بی جے پی کو یہاں سے 1 لاکھ 2 ہزار 837 ووٹوں کی سبقت حاص ہوئی تھی۔ اس حساب سے اگر یہاں 12 فیصد پولنگ بڑھتا ہے یوگی آدتیہ ناتھ کے مطابق یہاں کی سبقت 1.20 لاکھ اور بڑھ جاتی ۔

بی جے پی نے پولنگ فیصد بڑھانے کی حکمت عملی اس لئے بنائی تھی کیوں کہ 2017 میں بڑی لہر ہونے اور لوک سبھا حلقہ انتخاب کی تمام 5 اسمبلی نشستوں پر قبضہ کرنے کے باوجود اسے مجموعی طور پر 125820 کی سبقت حاصل ہوئی جو 2014 کے انتخابات کی 312783 کی سبقت کے نصف سے بھی کم تھی۔ اس وقت حزب اختلاف تقسیم تھا، جبکہ اس دفعہ متحد ہے۔

اتوار کو جب ووٹنگ ہوئی تو یوگی آدتیہ ناتھ کی تشخیص کے ٹھیک الٹا ہو گیا۔ شہری علاقے میں 12 فیصد ووٹنگ بڑھنے کے بجائے 2014 کے انتخابات سے 11.04 فیصد کم ہو گئی۔ اگر ایک فیصد ووٹنگ گھٹنے-بڑھنے پر بی جے پی کی سبقت میں دس ہزار کے فرق واقع ہونے کا یوگی آدتیہ ناتھ کا فارمولہ استعمال کیا جائے تو شہری علاقے میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے بی جے پی کے ایک لاکھ 10 ہزار ووٹ کم ہو گئے اور وہ سبقت لینے کے بجائے مخالف امیدوار سے وہ آٹھ ہزار ووٹوں کے پیچھے رہ گئے۔ اس طرح سے بی جے پی جہاں سب سے زیادہ سبقت کی امید کر تھی وہاں سے وہ پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔

بی جے پی کے ایک اعلی رہنما نے دعوی کیا کہ شہری علاقوں میں کم پولند کے باوجود بی جے پی کے امیدوار کو 40 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں 1،02،837 اور 2017 کے اسمبلی انتخابت میں 60370 کی برتری حاصل ہوئی تھی لیکن کم پولنگ کے سبب وہ امید کے مطابق سبقت نہیں بنا پا رہے ہیں۔ یوں تو پولنگ کی شرح گورکھ پور لوک سبھا سیٹ کے ہر اسمبلی حلقہ انتخاب میں کم ہوئی ہے لیکن شہر حلقہ انتخاب میں اتنی کم ووٹنگ ہوگی اس کی امید کسی کو نہیں تھی۔

پولنگ میں کمی کی گراوٹ کی کئی وجوہات تصور کی جا رہی ہیں۔ ایک بڑی وجہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا خراب ہونا اور ان کو درست کرنے یا تبدیل کرنے میں تاخیر کی وجہ سے پولنگ میں رکاوٹ واقع ہونا ہے۔ گورکھ پور لوک سبھا حلقہ انتخاب میں 100 سے زائد مشینیں خراب ہوئیں۔ دوسری ووٹنگ لسٹوں میں بے ضابطگی ہے جس کی وجہ سے تمام ووٹر پولنگ میں حصہ نہیں لے سکے، لیکن یہ تو ہر انتخاب میں ہوتا ہے۔ پولنگ میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ ووٹروں نے اس ضمنی انتخاب کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک سال بعد پھر سے الیکشن ہونا ہے۔ ایک سال کے اندر اسمبلی اور پھر مقامی بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد انہیں اس انتخاب کے نتیجے میں خاص پر دلچسپی نہیں تھی۔

گورکھ پور کے شہری علاقوں میں پولنگ کی شرح میں گراوٹ کی وجہ بی جے پی اور اس کے امیدواروں کے تئیں جوش کا نہ ہونا گزشتہ تین عشروں سے اسی طرح کے انتخابات کے نتائج سے لوگ اب اکتا چکے ہیں۔ پوری انتخابی مہم کا وزیر اعلی پر منحصر ہونا اور کارنر میٹنگ کے بجائے بڑے جلسہ انتخاب سے ہی بازی مار لے جانے کا انتہائی خود اعتماد تصور کیا جا رہا ہے۔

اب بی جے پی خیمہ میں تشویش کا ماحول ہےکہ اگر دوسرے حلقوں سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار نے سبقت حاصل کر لی تو کیا ہوگا؟ بی جے پی کیمپ کا خیال ہے کہ گورکھ پور پور شہر سے یہ کم از کم 40 ہزار اور کیمپیر گنج سے 25 ہزار کا اضافہ حاصل ہوگا۔ باقی تین اسمبلی حلقہ انتخاب میں وہ ترقی کے معاملے میں کوئی دعوی نہیں کر پا رہے ہیں۔ دوسری طرف ایس پی کے رہنماؤں نے دعوی کیا ہے کہ ان کے امید وار کو پپرائچ اور گورکھ پور دیہی حلقہ انتخاب یطرفہ طور سے ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور کیمپیر گنج و سہنجواں میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔

ایس پی امیدوار اور ان کے حکمت عملی سازوں کو یقین ہے کہ کم پولنگ کا ان پر کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔ ایس پی کے امیدوار پروین نشاد کے والد اور نشاد پارٹی کے صدر ڈاکٹر سنجے نشاد نے کہا ہے کہ بی جے پی کے ووٹر رائے دہی کے لئے باہر نہیں نکلے جبکہ ان کے ووٹروں نے جوش و جذبے کے ساتھ پولنگ کے عمل میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں لڑائی 70 فیصد بمقابلہ 30 فیصد کی تھی اور اس میں فتح ہماری ہونی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 12 Mar 2018, 9:59 PM
    /* */