کشمیر... بی جے پی، فوج اور قبریں

جموں و کشمیر میں اب صدر راج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی کو اکھاڑ پھینکنے کے نام پر کشمیر میں مزید تشدد کے ساتھ طاقت کا استعمال ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اجے سنگھ

جو لوگ یہ سوچتے یا مانتے رہے ہوں کہ کشمیر کے مشہور و معروف صحافی و سیاسی تجزیہ نگار شجاعت بخاری کے قتل کے پیچھے حکومت ہند کی سیکورٹی و خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ نہیں ہو سکتا، انھیں جموں و کشمیر بی جے پی کے ممبر اسمبلی اور سابق محبوبہ مفتی حکومت میں وزیر رہے چودھری لال سنگھ کے بیان پر غور کرنا چاہیے۔ کٹھوعہ علاقہ سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی چودھری لال سنگھ نے جموں میں 22 جون 2018 کو صحافیوں سے کہا کہ کشمیر کے صحافی اپنی حد میں رہیں ورنہ ان کا بھی حشر وہی ہوگا جو شجاعت بخاری کا ہوا۔ لال سنگھ نے کہا کہ کشمیر میں اگر صحافی مستقبل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی حد میں رہنا چاہیے۔

برسرعام دی گئی اس طرح کی مجرمانہ دھمکی یا تنبیہ سے دو باتیں منظر عام پر آتی ہیں۔ ایک، کوئی وزیر یا لیڈر اس طرح کا بیان تبھی دیتا ہے جب اسے اقتدار کے سرکردہ لوگوں کی طرف سے پشت پناہی حاصل ہو، اور دوسرا یہ کہ یہ بیان واضح طور پر سراغ دیتا ہے کہ شجاعت بخاری کا قتل کن لوگوں نے کیا اور کیوں کیاگیا۔

اس بیان سے کشمیر کے اندر اور باہر پھیلے اس سنگین اندیشہ کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس قتل کے پیچھے سرکاری ایجنسیوں، خصوصاً فوج کی خفیہ یونٹوں کا ہاتھ ہے۔ لال سنگھ کو اس بات کا اشارہ کہیں نہ کہیں سے ضرور ملا ہوگا اور انھیں اشارہ کیا گیا ہوگا کہ وہ یہ بات برسرعام کہیں۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے شجاعت بخاری کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیر کے صحافیوں کو یہ قاتلانہ دھمکی دی کہ وہ اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔

اس قتل کے فوراً بعد ایسے کئی بیان یکے بعد دیگرے آئے کہ یہ اسلامی دہشت گردوں کا کارنامہ ہے۔ کشمیر کے بارے میں بغیر سوچے سمجھے اس طرح کے بیان اکثر جاری کرنا بالادستی والی سیاسی سوچ کا حصہ بن گیا ہے جو نہایت بے معنی اور طفلانہ ہے۔ لیکن یہ سوچ مسلم مخالف اور ہندوتوا کا رنگ لیے ہوئے ہے، اس لیے یہ دور تک زہر پھیلانے والا ہے۔ یہاں تک کہ ہندی کے کئی لیفٹ ترقی پسند رائٹر بھی کشمیر کے بارے میں ہندوتووادی، اوٹ پٹانگ، بے معنی بیان جاری کرتے مل جائیں گے (شجاعت بخاری کے قتل پر بھی ایسے بیانات آئے ہیں)۔

شجاعت بخاری کا قتل، اس کے فوراً بعد محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹی پارٹی-بی جے پی اتحاد حکومت سے بی جے پی کا الگ ہونا اور جموں و کشمیر حکومت کا گر جانا، کشمیر میں شورش پسندوں اور عوام کے خلاف بہت زیادہ طاقت کے استعمال کے ساتھ تباہناک فوجی کارروائی نئے سرے سے شروع کرنا اور اسے صحیح ٹھہرانا، اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کی سرگرم تیاری... یہ سبھی چیزیں ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ یہ بس یوں ہی نہیں ہے۔ کشمیر کے بارے میں سوچتے وقت ہمیں ان پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔ صحافی کا قتل، حکومت گرانا، بے رحمانہ فوجی کارروائی، یہ اس منصوبہ بند پالیسی کا حصہ ہے جو اپریل-مئی 2019 کے لیے تیار کی گئی ہے۔

جموں و کشمیر میں اب صدر راج ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دہشت گردی کو اکھاڑ پھینکنے کے نام پر کشمیر میں مزید تشدد کے ساتھ طاقت کا استعمال ہوگا۔ لگتا ہے عوام کی مخالفت، مظاہرہ اور تحریک کو کچلنے کے لیے اور بھی زیادہ بے رحم طریقہ اور زیادہ فوجی عمل اختیار کیا جائے گا۔ مرکز کی بی جے پی حکومت نے 23 جون 2018 کو جو نیا فرمان جاری کیا ہے اس سے حالات مزید بے قابو ہو جائیں گے، مزید خون خرابہ ہوگا۔ فرمان میں کہا گیا ہے کہ فوجی کارروائی میں مارے گئے شورش پسندوں کی لاشیں ان کے گھر والوں کو نہیں دی جائیں گی اور ان کے جنازے پر روک لگے گی۔ ان لاشوں کو فوج و دیگر سیکورٹی فورس خود ہی وادی میں کسی انجان اور گمنام جگہ پر دفن کر دیں گے۔

کشمیر کے حالات لگاتار خوفناک اور قابو سے باہر ہوتےجا رہے ہیں۔ وادی میں صرف قبریں پھل پھول رہی ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔