بھارت جوڑو نیائے یاترا: یوں ہی نہیں تھا آسام میں ہنگامہ... اے جے پربل

آسام میں بھارت جوڑو نیائے یاترا کو لے کر جو کچھ ہوا اور وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے راہل گاندھی سے متعلق جو کچھ کہا اسے بس یوں سمجھنا چاہیے کہ بے کار باتیں کرنا کچھ لوگوں کا شغل بن گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو نیائے یاترا / آئی اے این ایس</p></div>

بھارت جوڑو نیائے یاترا / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

راہل گاندھی کے بارے میں اناپ شناپ باتیں کرنے اور ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلانا ہی کئی لوگوں کا شغل بن گیا ہے۔ آسام میں ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کو لے کر حال میں جو کچھ ہوا اور رنجش والا جذبہ رکھنے والے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے انھیں لے کر جو کچھ کہا-کیا اسے اسی ضمن میں دیکھنا چاہیے۔

اپنی آبائی ریاست میں ایچ بی ایس کے نام سے مشہور ہیمنت بسوا سرما شنکر دیو کی جائے پیدائش پر پوجا کرنے سے راہل گاندھی کو دور رکھنے کے خیال سے ’رام-راون‘ تماشے کو کچھ زیادہ دور ہی لے گئے۔ انھیں یہ کہتے ہوئے ظاہر کیا گیا ہے کہ ’آسام رام کے ساتھ ہے، راون کے ساتھ نہیں‘۔ یہ بات لوگوں کے گلے سے ٹھیک طرح نیچے نہیں اتری کیونکہ شنکردیو کے دَرشن کا مآخذ تفریق آمیز ہندوتوا سے ٹھیک برعکس ہے۔


شریمنت شنکردیو 15ویں صدی کے شاعر، سَنت، دانشور، مذہبی مصلح تھے اور ان کا نام آسام کے ہر گھر میں جانا پہچانا ہے اور اس معاملے میں مذہب کوئی خط تقسیم نہیں۔ اب بھی شاید ہی کوئی ایسا آسامی ہو جو ان کی شاعری سنتے ہوئے بڑا نہ ہوا ہو۔ انھوں نے آسام میں ’بھکتی آندولن‘ کو اسی طرح راغب کیا، جس طرح ہندوستانی برصغیر کے دوسرے حصوں میں نانک، کبیر، رامانند، باسو، نامدیو اور چیتنیہ نے کیا تھا۔

ہیمنت کو یہ یاد رکھنا چاہیے تھا کہ 2017 میں بی جے پی کے ’نمامی برہمپتر‘ تماشے کو بھی لوگوں نے پسند نہیں کیا تھا۔ جیسے ابھی ایودھیا میں کیا گیا، اس وقت فلم اسٹارس، گلوکاروں اور یوگا گرو سے کاروباری بن گئے رام دیو کو ’نمامی گنگے‘ برانڈ کی توسیع کرنے کے لیے یہاں بھی بلایا گیا تھا۔ ہریدوار سے انھیں یہاں ندی کی پوجا کے لیے طیارہ سے لایا گیا تھا۔ لیکن اسے لے کر آسام کے لوگ ٹھنڈے ہی رہے۔


برہمپتر ندی گنگا نہیں تھی۔ کاماکھیا مندر میں ندی کو لے کر روزانہ منتروچار ہوتا ہے اور سال میں ایک دفع لوگ اس میں روایتی اشنان کرتے ہیں، لیکن اس کی پوجا نہیں کی جاتی۔ آسامی تبصرہ نگاروں نے تب بھی اسے ’دوسرے حصوں میں ہونے والے تصورات اور سنک‘ والی فضول خرچی کے طور پر ہی دیکھا تھا۔ یہ سب پھر کبھی نہیں دہرایا گیا۔

آسام کے وزیر اعلیٰ یقینی طور پر ریاست میں سب سے مشہور بھاجپائی سیاستداں ہیں اور ان پر سَنگھ کا ایسا ہاتھ ہے کہ اس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ میں صفحہ اول پر ان کی تصویر بھی چھپتی ہے۔ اگر آپ میڈیا کوریج دیکھیں تو ریاست میں ان کا تام جھام بھی خوب نظر آتا ہے۔ 2019 میں آسام میں بی جے پی نے 14 میں سے 9 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں اور اس کا ووٹ شیئر 36.05 فیصد تھا۔ یہ کانگریس سے ذرا ہی زیادہ تھا جسے تب 35.44 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس وقت بی جے پی کے خلاف تھوڑا منفی رجحان تھا اور کانگریس کے حق میں 5.8 فیصد مثبت ووٹ پڑے تھے۔


دو سال بعد 2021 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 126 میں سے 60 سیٹوں پر جیت ملی تھی لیکن اسے 33.2 فیصد ووٹ ہی ملے تھے۔ کانگریس کو سیٹیں تو صرف 29 ملی تھیں لیکن اسے 29.7 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہاں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے اور کانگریس کی قیادت میں ’مہاجوت‘ اتحاد کے درمیان مقابلہ تھا اور دونوں کے درمیان بہت ہی باریک (0.83 فیصد) فرق رہا۔ اس سے سبق لیتے ہوئے 15 پارٹی والے یو او ایف (یونائٹیڈ اپوزیشن فورم) نے سبھی 14 لوک سبھا حلقوں میں مشترکہ امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یو او ایف کی پارٹیاں قومی سطح پر ’انڈیا اتحاد‘ میں بھی ہیں اور وہ آسام میں بھارت جوڑو نیائے یاترا میں ساتھ رہیں۔ پارٹیوں کے اس اتحاد سے میڈیا حیران ہے کیونکہ وہ اپوزیشن اتحاد میں نام نہاد رسہ کشی کو لے کر مبالغہ آمیز باتوں کی تشہیر کرتا رہتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یو او ایف میں ترنمول کانگریس، سی پی آئی، سی پی ایم، عام آدمی پارٹی، جنتا دل (یو)، آسام نسلی کونسل اور اکھل گگوئی کی قیادت والی رائجور پارٹی بھی ہے۔ سبھی 14 لوک سبھا سیٹوں پر عام اتفاق سے امیدوار اتارنے کا فیصلہ ان پارٹیوں نے دسمبر 2023 میں دھبری میں ہوئی میٹنگ میں لیا۔ اس میں یہ بھی طے ہوا کہ بی جے پی کے ساتھ مشتبہ رشتے کی وجہ سے عطر کاروباری بدرالدین اجمل کی قیادت والے آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کو اس سے الگ رکھا جائے گا۔


’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے راستہ میں شمال مشرق کی دیگر ریاستیں تھیں منی پور، ناگالینڈ، اروناچل پردیش اور میگھالیہ۔ سب جگہ اسے لے کر خاصہ جنون رہا۔ ان ریاستوں میں کہیں ایک تو کہیں دو ہی سیٹیں ہیں اور یہ عام انتخاب پر نتیجہ خیز اثر ڈالنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ نسلی بنیاد پر منقسم منی پور کا وزیر اعظم مودی نے دورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن یہ سرحدی ریاستیں ہیں اور وہ دہلی میں بیٹھی حکومت کے بارے میں جیسا محسوس کرتے ہیں، وہ سیاسی اہمیت سے بالاتر نہیں ہیں۔

اس حصے میں این ڈی اے کو نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (نیڈا) کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ 2019 میں اس نے شمال مشرق کی 25 میں سے 20 سیٹیں جیتی تھیں۔ ان میں سے 15 بی جے پی کے پاس گئی تھیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر کی باتوں سے ہی صاف ہے، دونوں اتحادوں کے ووٹوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یو او ایف کے حق میں 1 فیصد ووٹوں کا اضافہ ہونا نیڈا کی گاڑی کو پٹری سے اتار سکتی ہے۔

(یہ مضمون نگار اے جے پربل کی ذاتی رائے ہے، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔