بہار انتخاب: پہلے مرحلہ میں مسلمان پوری طرح متحد، یادو برادری کی برسوں بعد گھر واپسی سے ’مائی‘ فارمولہ پھر ہوا زندہ
مجموعی طور پر پہلے مرحلہ کے تحت 18 اضلاع کے 121 اسمبلی حلقوں کے انتخابات میں تبدیلیٔ اقتدار کا رجحان غالب نظر آیا اور حزب مخالف مہاگٹھ بندھن کو سبقت حاصل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

دراندازی کا مسئلہ اٹھا کر ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکانے، انہیں مشتعل کر کے مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے، ماحول خراب کرنے، نفرت و تشدد کا بازار گرم کرنے اور لالو-رابڑی کے دور اقتدار کا بار بار اور کثرت سے تذکرہ کر جنگل راج کی واپسی کا خوف دکھا کر عوام کو ورغلانے کی بی جے پی اور این ڈی اے لیڈران، بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگر شعلہ بیاں مقررین نے ہر ممکن کوشش کی، لیکن عوام کی اکثریت نے ان کی جذباتی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی کے سارے حربے اب ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی پولنگ سے ٹھیک ایک دن قبل ووٹروں میں نقد رقم تقسیم کی گئی اور رات بھر دلال قسم کے کارکنان سرگرم ہو کر غریب اور کمزور طبقہ کے ووٹروں میں رقم بانٹتے رہے۔ ریاست بھر میں چپے چپے پر تعینات مرکزی نیم فوجی دستوں کی 1500 کمپنیوں کے تقریباً ساڑھے چار لاکھ جوان اور متعلقہ انتخابی حلقوں کے انتخابی افسران خاموش محض تماشائی بنے رہے۔
دربھنگہ کے حیا گھاٹ اسمبلی حلقہ میں مہاگٹھ بندھن حمایت یافتہ سی پی آئی ایم امیدوار شیام بھارتی کی غیر معمولی مستعدی اور بروقت مداخلت کے سبب ووٹنگ سے ایک دن قبل بی جے پی کارکن کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر والے تھیلے میں نقد رقم (500-500 روپے کے نوٹ) ڈالے جانے اور اسے ووٹروں میں تقسیم کیے جانے کے دوران گرفت میں لے لیا گیا۔ پولیس و انتظامیہ کو اس کی اطلاع بھی دے دی گئی۔ آخرکار پولیس کو مجبور ہو کر مذکورہ نوجوان کو گرفتار کرنا پڑا۔ اس وقت بی جے پی کارکنان کے پاس سے 89 ہزار روپے نقد اور وزیر اعظم مودی کی تصویر والے کئی تھیلے وغیرہ برآمد کیے گئے۔
پہلے مرحلہ کی ووٹنگ والے دن، یعنی 6 نومبر کو بھی صبح سے شام تک درجنوں انتخابی حلقوں میں برسراقتدار این ڈی اے، خصوصاً بی جے پی کے امیدواروں و کارکنوں کے ذریعہ غریب و کمزور طبقات کے ووٹروں کو خوفزدہ کرنے اور حق رائے دہی کا استعمال کرنے سے محروم کرنے کی زوردار کوششیں کی جاتی رہیں۔ ان میں نائب وزیر اعلیٰ وجے کمار سنہا، کانٹی سے جے ڈی یو امیدوار اجیت کمار، جالے میں بی جے پی امیدوار جیویش مشرا، کیوٹی میں بی جے پی امیدوار مراری موہن جھا اور لال گنج میں بی جے پی امیدوار سنجے سنگھ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ڈرانے، دھمکانے، لالچ دینے جیسے حربے اختیار کیے جانے کے باوجود بہار کے اقتدار کی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے عوام کے ایک بڑے طبقہ کا دل نہیں بدلا اور ان کا رجحان برقرار رہا۔ اقتدار تبدیلی کے لیے وہ بالکل آخری لمحہ تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
مجموعی طور پر پہلے مرحلہ کے تحت 18 اضلاع کے 121 اسمبلی حلقوں کے انتخابات میں تبدیلیٔ اقتدار کا رجحان غالب نظر آیا اور حزب مخالف مہاگٹھ بندھن کو سبقت حاصل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جو حالات زمین پر دیکھنے کو ملے اس سے مہاگٹھ بندھن اپنے حصے کی 61 سیٹوں پر فتح برقرار رکھنے کے ساتھ ہی مزید 10 سے 15 سیٹیں این ڈی اے سے چھینتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یعنی 121 میں سے تقریباً 75-70 سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے۔
مہاگٹھ بندھن کی سبقت کی 5 بڑی اور اہم وجوہات پر غور کیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پہلی وجہ ہے کہ پہلے مرحلہ کے انتخابات والے حلقوں میں مسلم ووٹروں کا تناسب 30 سے 35 فیصد ہے، جو ’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان‘ کھولنے کے اپنے واضح نظریے کے تحت تمام فروعی اختلافات کو فراموش کر کے آپس میں پوری طرح متحد و منظم ہو گئے۔ مسلمانوں نے اپنے غیر معمولی اور زبردست اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے امن و ترقی کے لیے اپنے حق رائے دہی کا استعمال خوب جم کر کیا۔ دہلی، ممبئی، کولکاتا، احمد آباد، سورت، حیدر آباد، بھوپال، پونے، پنجاب، ہریانہ اور ملک کے دیگر شہروں و ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم ووٹرس بھی اس بار اپنے گھر پہنچے اور ’ایس آئی آر‘ کے مرحلے میں بہت مشکل سے ووٹر لسٹوں میں بچ گئے اپنے نام کو برقرار رکھنے کے مقصد سے اپنی ووٹنگ کو یقینی بنایا۔
پردہ نشیں مسلم خواتین بھی اس میں پیچھے نہیں رہیں۔ ووٹنگ کے دن 6 نومبر کی صبح بس میں پٹنہ سے دربھنگہ جا رہی ایک پردہ نشیں مسلم خاتون نے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ ایس آئی آر کے مرحلہ میں بہت مشکل سے اس کا نام ووٹر لسٹ میں بچا ہے۔ اگر اس بار ووٹ نہیں دے گی تو نام کٹ جائے گا اس لیے کرایے کے مکان میں اپنے 3 معصوم بچوں کو مکان مالک کی نگرانی میں چھوڑ کر وہ اپنے گھر جا رہی ہے، اور پھر ووٹ دے کر فوراً واپس چلی آئے گی۔ پڑھی لکھی معلوم ہو رہی اس مسلم خاتون نے یہ بھی کہا کہ بہار اور ملک میں امن و ترقی ضروری ہے۔ اسی مقصد سے وہ اپنی پسند کی پارٹی و امیدوار کو ووٹ دے کر جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ بہار سمیت پورے ملک میں نفرت کا ماحول قائم کیا جا رہا ہے جس سے امن و اتحاد کو خطرہ لاحق ہے اور یہ خطرناک ماحول خاندان، سماج اور ریاست و ملک کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اس لیے اب بہتر و مثبت فکر کے لوگوں، خاص کر نوجوان قیادت کو ریاست کی باگ ڈور سونپے جانے کی ضرورت ہے۔
مہاگٹھ بندھن کو سبقت ملتی نظر آنے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ تقریباً 10 برسوں کے طویل عرصے بعد یادو برادری نے مکمل طور پر ’گھر واپسی‘ کر لی ہے۔ یہ طبقہ آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو اور ان کے صاحبزادے تیجسوی یادو کو پھر سے اپنا مضبوط قائد تسلیم کرنے لگا ہے۔ اس طرح لالو پرساد کا ’مائی‘ (ایم وائی) فارمولہ پھر سے زندہ ہو گیا معلوم پڑتا ہے۔ گزشتہ 11 برسوں میں پیدا ہوئے نئے حالات میں یادو ذات کی تقریباً 50 فیصد آبادی آر جے ڈی سے منحرف ہو کر بی جے پی کی حمایت میں چلی گئی تھی، اور اس کے ووٹ بینک کا ایک مضبوط حصہ بن گئی تھی۔ اس برادری کی گھر واپسی کی بنیادی وجہ تقریباً 2 ہفتے قبل مکامہ میں جَن سوراج پارٹی کے امیدوار پیوش کے حامی و سرگرم لیڈر دلار چند یادو کا قتل واقعہ بنی۔ اس قتل واقعہ کے بعد پورے بہار کی یادو برادری میں برسراقتدار این ڈی اے حکومت کے خلاف شدید ناراضگی پیدا ہو گئی اور یہ لہر کافی تیزی سے چلی۔
تیسری وجہ یادو-مسلم-ملاح طبقہ کا گٹھ جوڑ ہے۔ واضح ہو کہ ریاست میں یادو برادری کی آبادی 14 فیصد ہے، جبکہ مسلمانوں کی آبادی17.7 فیصد، یعنی تقریباً 18فیصد ہے۔ اسی طرح ملاح 2.66 فیصد ہے، جس کے رہنما مکیش سہنی کو نائب وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ’مائی‘ فارمولہ کے 32 فیصد میں ملاح طبقہ کے جڑنے سے یہ تقریباً 35 فیصد کا مضبوط ووٹ بینک مہاگٹھ بندھن کی اصل طاقت ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تقریباً 25 فیصد آبادی، انتہائی پسماندہ ذاتوں کی تقریباً 30 فیصد اور دلتوں کی بھی تقریباً 30 فیصد آبادی کو اپنی حمایت میں لینے میں مہاگٹھ بندھن کامیاب ہوا ہے۔
چوتھی بڑی وجہ تقریباً 30 لاکھ غیر مقیم بہاریوں کی دیوالی اور چھٹھ کے موقع پر گھر آکر ووٹنگ کے لیے ٹھہر جانا ہے۔ ان میں تقریباً 70 فیصد یعنی 21 لاکھ سے زائد ووٹر غریب، مزدور، کسان اور چھوٹے تاجر ہیں جنہوں نے ووٹر لسٹ میں اپنا نام بچائے رکھنے اور اپنا خیال رکھنے والی حکومت قائم کرنے کے لیے جم کر ووٹنگ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مرحلہ کی ووٹنگ میں 2020 کے مقابلے تقریباً 7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تبدیلیٔ اقتدار کے حق میں معلوم ہوتا ہے۔
پانچویں اہم وجہ مہاگٹھ بندھن کو سبقت ملنے کی کانگریس کے سرکردہ لیڈران کی سرگرم انتخابی تشہیر ہے۔ انتخابی تشہیری مہم میں کھڑگے، راہل اور پرینکا کی مسلسل سرگرمی و دلچسپی نے کانگریس کارکنوں و رہنمائوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ ان تینوں کانگریسی رہنمائوں کی زوردار تقاریر کے دوران ملک کے حقائق کا پردہ فاش کیے جاتے رہنے سے عوام کی اکثریت کا رجحان این ڈی اے سے منحرف ہو گیا اور کانگریس و مہاگٹھ بندھن کے سلسلے میں نہ صرف ان کی غلط فہمی دور ہو گئی بلکہ مثبت فکر اور سنجیدگی بھی پیدا ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ این ڈی اے کے ووٹ بینک میں ایک بڑی سیندھ ماری ہو گئی اور اس کے ووٹ بینک کے ایک بڑے حصہ نے مہاگٹھ بندھن کو بہار کی خدمت کا ایک موقع دینے کا ارادہ کر لیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔