مودی-نتیش دوستی کا انحصار 2019 انتخابی نتائج پر

اگر نریندر مودی مرکز میں دوبارہ برسراقتدار ہوتے ہیں تو نتیش کو دوسری پالیسی تیار کرنی ہوگی کیونکہ اس صورت میں وہ مزید کمزور ہو جائیں گے اور بی جے پی ان سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سرور احمد

چاروں طرف سے گھرے ہوئے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی ساری امیدیں صرف ایک چیز سے جڑی ہوئی ہیں، اور وہ یہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات۔ اس انتخاب میں اگر نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کی شکست ہوتی ہے تو نتیش کمار کے لیے یہ خوش آئندہ ثابت ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کی پارٹی جنتا دل یو کے اقتدار میں واپس آنے کے امکانات بھی بہت کم ہو جائیں گے۔ اس لیے جنتا دل یو نے خاموشی کے ساتھ کم از کم بہار میں بی جے پی کے اثر کو کم کرنے کی پالیسی پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔

نتیش کمار جانتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور وزیر اعلیٰ تھے جب مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کی حکومت تھی۔ ان کا اندازہ ہے کہ مئی 2019 میں نریندر مودی کی شکست کے بعد ان کے پاس اکتوبر-نومبر 2020 میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل اپنی شبیہ کو چمکانے کے لیے 18 مہینے بچے ہوں گے۔ اگر بی جے پی 2019 میں شکست کھاتی ہے تو بہار میں آر ایس ایس فیملی کے سارے بڑے لیڈر مایوسی میں غرق ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ایک بار پھر نتیش کو بہار این ڈی اے میں ابھرنے کا موقع ملے گا۔ انھیں اس میں نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کی حمایت مل سکتی ہے جو بی جے پی لیڈر ہوتے ہوئے بھی بھگوا بریگیڈ کے اندر نفرت سے دیکھے جاتے ہیں۔

2019 میں اگر این ڈی اے ہار جاتی ہے تو نتیش مسلم، دلت اور کئی پسماندہ ذاتوں کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے جو ان کی پارٹی سے دور جا چکے ہیں۔ وہ کئی سیکولر دماغ والے اعلیٰ ذات کے لوگوں کا بھی ایک بار پھر حمایت چاہیں گے جن کی حمایت انھیں 2005 سے 2013 کے درمیان حاصل تھی۔

نتیش کمار کے ذریعہ حال میں اٹھائے گئے کئی اقدام نے بی جے پی کے اندر کچھ کٹّر لیڈروں کو حیرانی میں ڈال دیا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی کے سربراہ اور مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان سے ان کی نزدیکی کو خاص نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جس طرح سے نتیش کمار نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ یا امارت شرعیہ کے ذریعہ منعقد ’دین بچاؤ، دیش بچاؤ‘ ریلی کو یرغمال بنا لیا اور اس ریلی کے کنوینروں میں شامل خالد انور کو جنتا دل یو کے ذریعہ ایم ایل سی بنا دیا گیا، اس سے کئی سیاسی تجزیہ نگار انگشت بدنداں ہیں۔

کٹھوعہ اور اناؤ عصمت دری کی مخالفت میں کئی خواتین کارکنان کے ذریعہ پٹنہ میں 72 گھنٹے کے اُپواس پروگرام میں جنتا دل یو کے جنرل سکریٹری شیام رجک کی موجودی بھی ایک طرح سے حیران کرنے والی ہے۔ شیام رجک کو ایسی جگہ پر کیوں بھیجا گیا جب کہ یہ صاف تھا کہ جو لوگ وہاں جمع تھے وہ بی جے پی پر حملہ آور تھے؟ کچھ مقررین نے عصمت دری کے واقعات پر نتیش کی خاموشی کی بھی تنقید کی۔ لیکن شیام رجک کو بھیج کر بہار کے وزیر اعلیٰ صاف کر دیا کہ بی جے پی کی کسی بھی مشکل حالت کا فائدہ اٹھانے کے لیے وہ ہمیشہ تیار ہیں۔

یہ ساری چیزیں نتیش کی خود کو مرکز میں لانے کے خفیہ منصوبہ کا حصہ ہیں۔ گزشتہ دنوں پورے بہار میں ہوئے فسادات کے بعد بی جے پی کے مرکزی وزراء گری راج سنگھ اور اشونی چوبے کے رویہ نے انھیں حاشیے پر دھکیل دیا تھا۔

ماہرین کی رائے ہے کہ حیران کرنے والے کٹھوعہ اور اناؤ اجتماعی عصمت دری کے واقعات کے بعد بی جے پی نے جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے بی جے پی کی شبیہ کو کافی دھچکا پہنچا ہے۔ اس نے نتیش کو پاؤں پھیلانے کا موقع دیا۔ انھیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ فی الحال کافی کمزور حالت میں ہیں اور انھوں نے سودے بازی کی ساری طاقت ختم کر لی ہے۔ وہ راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے مہاگٹھ بندھن میں واپس نہیں جا سکتے۔ اس لیے انھیں آئندہ سال کے لوک سبھا انتخابات تک بی جے پی-جنتا دل یو اتحاد کو جاری رکھنا ہوگا۔

نتیش کمار شاید اپنے ممبران اسمبلی کو ساتھ نہ رکھ پائیں...

نتیش کمار جانتے ہیں کہ انھیں اس حالت کو کافی احتیاط کے ساتھ سنبھالنا ہوگا اور سنبھل سنبھل کر چلنا ہوگا، ورنہ ان کی کوششیں الٹی پڑ سکتی ہیں۔ اس پورے سال کے دوران انھیں اپنے آپ کو تھوڑا دبا کر رکھنا ہوگا اور این ڈی اے کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا ہوگا۔ مرکز میں جیسے ہی نریندر مودی کی شکست ہو جاتی ہے ویسے ہی انھیں اپنا اصلی رنگ دِکھانا ہوگا۔

جیسے ہی نریندر مودی اقتدار سے باہر ہوتے ہیں نتیش اپنے سارے ہتھیار ان کی طرف موڑ دیں گے جیسا کہ ماضی میں کرتے تھے۔ تب وہ خود کو بہار کا واحد طاقتور وزیر اعلیٰ امیدوار کے طور پر پیش کریں گے۔ یہ کام ان کے لیے بہت آسان ہو جائے گا اگر اس وقت تک آر جے ڈی سربراہ لالو یادو جیل میں ہی رہتے ہیں۔ جنتا دل یو تب یہ کہے گی کہ بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور فی الحال اپوزیشن کے لیڈر تیجسوی یادو نتیش کی شخصیت کے سامنے کہیں نہیں ٹھہرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تجربہ نہیں ہے۔

لیکن اگر مودی مرکزی اقتدار میں واپس آ جاتے ہیں تو نتیش کو دوسری پالیسی تیار کرنی ہوگی کیونکہ اس حالت میں وہ مزید کمزور ہو جائیں گے۔ بی جے پی شاید ان سے 2020 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے علیحدگی اختیار کر لے۔

نتیش کا سب سے بڑا مسئلہ کہیں اور ہے۔ وہ لوک سبھا انتخابات میں ہاری ہوئی بی جے پی سے شاید نپٹ بھی لیں لیکن ایک خوف یہ ہے کہ ایسی حالت میں اچھی خاصی تعداد میں جنتا دل یو کے ممبران اسمبلی آر جے ڈی-کانگریس خیمے میں چلے جائیں۔ اگر این ڈی اے کی لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد نتیش حکومت گر جاتی ہے تو وزیر اعلیٰ کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں واپسی کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔

فی الحال جو کچھ نظر آ رہا ہے اس کے مطابق بہار میں بی جے پی اور جنتا دل یو کا اتحاد کافی عجیب ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف پالیسی بنانے میں ہی مصروف نظر آ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Apr 2018, 6:55 AM