بہار اسمبلی انتخابات: سخت مقابلہ کے درمیان مہاگٹھ بندھن کو اکثریت ملنے کے آثار، لیکن ووٹ شماری میں گڑبڑی کا اندیشہ بھی لاحق!

ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد مختلف قسم کے ایگزٹ پول سروے اور قیاس آرائیاں و مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ساری نگاہیں جمعہ، یعنی  14 نومبر کو ہونے والی ووٹ شماری پر مرکوز ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/ECISVEEP">@ECISVEEP</a></p></div>
i
user

عتیق الرحمٰن

’بہار اسمبلی انتخابات 2025‘ میں 2 مرحلوں کے دوران 243 سیٹوں کے لیے مجموعی طور پر تشدد سے پاک اور پُرامن ماحول میں پولنگ مکمل ہو گئی۔ دونوں مرحلوں میں مجموعی طور پر 67.13 فیصد ووٹنگ ہوئی، جس نے سابقہ 73 سالوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ 62.98 فیصد مرد ووٹرس نے اور 71.78 فیصد خاتون ووٹرس نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ یعنی ووٹنگ کے تناسب میں مرد کے مقابلے تقریباً 9 فیصد زیادہ خواتین نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ قابل ذکر ہے کہ 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں 57.29 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ اس طرح 5 سال بعد ووٹنگ تناسب میں 9.62 فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

ووٹنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد مختلف قسم کے ایگزٹ پول سروے اور قیاس آرائیاں و مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ اب ساری نگاہیں جمعہ، یعنی  14 نومبر کو ہونے والی ووٹ شماری پر مرکوز ہے۔ ووٹ شماری کے لئے الیکشن کمیشن نے انتہائی سخت اور غیر معمولی انتظامات مکمل کر لیے جانے کا دعویٰ کیا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ سبھی اسٹرانگ روم کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ پٹنہ سمیت ریاست بھر میں 46 مراکز پر جمعہ کی صبح ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔ ووٹ شماری کے لیے مقرر اہلکاروں کو 3 مرحلوں میں خصوصی طور پر تربیت بھی دی جا چکی ہے۔ بہار کے چیف الیکشن افسر ونود سنگھ گنجیال نے کہا ہے کہ سبھی اسٹرانگ روم کو 3 سطح کے سیکورٹی گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی سے مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے خود پٹنہ سمیت کئی مقامات پر اسٹرانگ روم کا معائنہ کیا ہے اور تیاریو ں کا جائزہ لیا ہے۔ انتخابی نتائج کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر جاری بحث و قیاس آرائیوں کے درمیان ایک اہم حقیقت قابل غور ہے کہ ووٹوں کی گنتی اور انتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی کے اندیشے عام ووٹروں کے ذریعہ بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس سے متعلق شکایتیں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ بھی الیکشن کمیشن سے کی جا رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی حکومت والی ریاستوں سے پولیس دستہ کی 208 کمپنیاں بہار کے انتخابی امور میں لگائی گئی ہیں۔ 243 رکنی بہار اسمبلی کے انتخاب میں تعینات 68 فیصد مشاہدین بی جے پی حکومت والی ریاستوں سے ہی ہیں۔ پہلی بار یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت والی ریاستوں سے پولیس دستے منگوائے گئے، جبکہ پڑوسی ریاستوں جھارکھنڈ اور مغربی بنگال سے پولیس دستے نہیں منگوائے گئے، نہ ہی اپوزیشن کی حکومت والی دوسری ریاستوں پنجاب و کرناٹک، تمل ناڈو اور تریپورہ سے پولیس دستے منگوائے گئے ہیں۔ ان سبھی حقائق پر ریاستوں کے دانشوروں کے ذریعہ بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ووٹوں کی گنتی اور انتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر افسران کے ذریعہ گڑبڑی کیے جانے کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔


ان سب کے باوجود اسمبلی انتخابات میں برسراقتدار این ڈی اے اور حزب مخالف مہاگٹھ بندھن کے مابین سیدھی اور کانٹے کی ٹکر ہے۔ 100 سے زائد اسمبلی حلقوں میں بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے امیدواروں کی جیت اور ہار کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ انتخابی مقابلے کو سہ رخی بنانے کی کوششوں میں سرگرم جَن سوراج پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم کو عوام کی اکثریت نے مسترد کر دیا ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں مجموعی طور پر بے اثر ہی ثابت ہوتی نظرآ رہی ہیں۔ سب سے زیادہ ووٹنگ (78.96 فیصد) والے کٹیہار ضلع میں مسلمانوں اور یادو سمیت مختلف پسماندہ و انتہائی پسماندہ ذات کے ووٹرس کی اکثریت نے متحد ہو کر مہاگٹھ بندھن کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ اس سلسلے میں کٹیہار باشندہ ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ ’’پورے کٹیہار ضلع میں مسلمانوں نے اے آئی ایم آئی ایم اور جَن سوراج کو مسترد کرتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کی حمایت میں جم کر ووٹ دیے ہیں۔ پورے ضلع میں مہاگٹھ بندھن کا پرچم لہرائے گا۔‘‘ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ووٹرس نے تو اپنے جذبات کا اظہار ایمانداری سے کیا ہے، لیکن ووٹ شماری کے عمل میں گڑبڑی کے اندیشے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

78.15 فیصد ووٹنگ کے ساتھ ریاست میں دوسرے نمبر پر رہے کشن گنج ضلع میں بھی مہاگٹھ بندھن کے حق میں یکطرفہ لہر کے دعوے مقامی ووٹرس کے ذریعہ کیے جا رہے ہیں۔ کشن گنج شہر کے پالی چوک باشندہ قیصر عالم عرف نکی کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ کانگریس امیدوار قمرالہدیٰ کی حمایت میں ووٹ ڈالے ہیں اور پورے اسمبلی حلقہ کے 70 فیصد سے زائد ووٹرس نے ان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ اس لیے ایک بڑی اکثریت سے کانگریس امیدوار کی کامیابی یقینی ہے۔ ضلع کی دوسری سیٹوں کوچہ دھامن، بہادر گنج، ٹھاکر گنج اور دیگر سیٹوں پر بھی مہاگٹھ بندھن امیدواروں کی جیت یقینی ہے۔ کشن گنج پلائی ووڈ فیکٹری کے پروپرائٹر مظہر حسین نے کہا کہ پورے کشن گنج میں مہاگٹھ بندھن کا قبضہ ہوگا، جہاں مسلمانوں نے 2015 کی طرح ایک مرتبہ پھر اے آئی ایم آئی ایم کو خارج کر کے مہاگٹھ بندھن کو اپنی پسند بنایا ہے۔


بھاگلپور اسمبلی حلقہ کے باشندگان مولانا افتخار احمد، پروفیسر سنوج یادو اور پروفیسر سمیر کمار نے دعویٰ کیا کہ ان لوگوں نے ایک ماہ تک مہاگٹھ بندھن حمایت یافتہ کانگریس امیدوار اجیت شرما کی حمایت میں زوردار مہم چلائی، جس میں عوام کی اکثریت کا رجحان مہاگٹھ بندھن کی حمایت میں رہا۔ یعنی اجیت شرما بڑی اکثریت سے کامیاب ہونے جا رہے ہیں۔ کہلگاؤں حلقہ سے بھی مہاگٹھ بندھن امیدوار کی فتح کے امکانات ڈاکٹر یعقوب اشرفی، مولانا ضیا الحسن، محمد سلیم الدین، محمد ضیا الدین اور محمد حسین نے ظاہر کیے ہیں۔ جہان آباد کے گھوسی اسمبلی حلقہ سے بھی مہاگٹھ بندھن کو فتح ملنے کا امکان کائنات فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شکیل کاکوی، معروف سماجی کارکنان ہری لال یادو اور سریندر موہن نے ظاہر کیے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ پورے جہان آباد ضلع میں مسلم اور یادو نے پوری طرح متحد و منظم ہو کر مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ پڑوسی ضلع گیا کی بیشتر سیٹوں پر بھی مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کی یکطرفہ حمایت عوام کی اکثریت کے ذریعہ کی گئی۔ اس لیے دونوں ضلع میں مہاگٹھ بندھن کا پرچم لہرائے گا۔ حالانکہ ڈاکٹر شکیل کاکوی اور اعجاز احمد نے ووٹ شماری میں گڑبڑی کا اندیشہ بھی ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں بھی مہاگٹھ بندھن کے حق میں ایسی ہی لہر تھی اور عوام نے مہاگٹھ بندھن کو ہی ووٹ دیا تھا، لیکن ووٹوں کی گنتی اور انتخابی نتائج میں گڑبڑی کر کے کئی حلقوں میں این ڈی اے کوجیت دلا دی گئی۔

مجموعی طور پر مہاگٹھ بندھن کے امیداوروں کی بڑی تعداد میں فتح کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ چونکہ بیشتر ووٹرس مہاگٹھ بندھن امیدواروں کی حمایت میں ووٹ دینے کے دعوے کر رہے ہیں، اس کی بنیاد پر واضح اشارہ ملتا ہے کہ مہاگٹھ بندھن کو اکثریت ملنے کے پورے آثار ہیں۔ کچھ ووٹرس کا کہنا ہے کہ کیوٹی سے فراز فاطمی، ڈھاکہ سے فیصل رحمان، سمری بختیار پور سے یوسف صلاح الدین، کانٹی سے اسرائیل منصوری، سمستی پور سے اخترالاسلام شاہین، سرسنڈ سے ابودوجانہ، نرکٹیا سے ڈاکٹر شمیم احمد، بسفی سے آصف احمد، ٹھاکر گنج سے مولانا سعود عالم، امور سے عبدالجلیل مستان، ارریہ سے عابد الرحمن، کشن گنج سے قمرالہدیٰ، کدوا سے ڈاکٹر شکیل احمد خان، بہار شریف سے عمیر خان، بلرام پور سے محبوب عالم، کوچہ دھامن سے مجاہد عالم، جوکی ہاٹ سے شاہنواز عالم، بائسی سے عبدالسبحان، رفیع گنج سے غلام شاہد انصاری، جموئی سے شمشاد عالم، سکندرا سے اودئے نارائن چودھری، نوکھا سے انیتا دیوی، جھاجھا سے جئے پرکاش نارائن یادو، مدھوبنی سے سمیر کمار مہاسیٹھ، بودھ گیا سے کمار سروجیت، دھمداہا سے سنتوش کشواہا، جہان آباد سے راہل شرما، کرتھا سے سودئے یادو، مخدوم پور سے صوبیدار داس، کشن گنج سے قمرالہدیٰ، قصبہ سے محمد عرفان، نرکٹیا گنج سے شاشوت کیدار پانڈے، کٹمبا سے راجیش رام، ریگا سے امت کمار ٹنا، اورنگ آباد سے آنند شنکر سنگھ، کاراکاٹ سے ارون کشواہا، سکٹا سے ویریندر گپتا، ارول سے مہانند سنگھ، گھوسی سے رام بلی سنگھ یادو، پپرا سے راج منگل پرساد، حیا گھاٹ سے شیام بھارتی، بانکا سے سنجے کمار یادو، ہرلاکھی سے راکیش پانڈے، کیسریا سے ورون وجئے، منیر سے بھائی ویریندر اور کٹیہار سے سوربھ اگروال سمیت دونوں مرحلوں کی تمام 243 سیٹوں میں سے تقریباً 120 سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کے امیدواروں کی فتح کے امکانات انتہائی روشن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد میں ’ایگزٹ پول‘ (جس میں این ڈی اے کو اکثریت حاصل کرتا ہوا دکھایا گیا ہے) کے نتائج کے خلاف شدید غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔