بہار اسمبلی انتخاب 2025: مہاگٹھ بندھن کے مسلم امیدواروں کی پوزیشن مضبوط، نہیں ہو رہی مسلم ووٹوں کی تقسیم!... عتیق الرحمٰن
این ڈی اے سے صرف 5 مسلم امیدوار دیے جانے کے سبب ریاست کی 18 فیصد مسلم آبادی میں برسراقتدار طبقہ کے خلاف ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دوسری طرف مہاگٹھ بندھن نے 30 مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

’بہار اسمبلی انتخاب 2025‘ میں جہاں ایک طرف اپنے حصے کی 101 سیٹوں میں سے ایک بھی سیٹ پر مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیے جانے کے سبب برسراقتدار بی جے پی کے تئیں مسلمانوں کی ناراضگی میں شدید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، وہیں اتحادی جماعت جے ڈی یو کے ذریعہ بھی اپنے حصے کی 101 میں سے محض 4 سیٹوں پر اور چراغ پاسوان کے ایل جے پی (آر) کے ذریعہ 29 میں سے صرف ایک سیٹ پر مسلم امیدوار کھڑا کیا جانا موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر پورے این ڈی اے سے صرف 5 مسلم امیدوار دیے جانے کے سبب ریاست کی 18 فیصد آبادی، یعنی مسلمانوں میں این ڈی اے کے خلاف ناراضگی میں حد درجہ اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسری طرف اس مرتبہ بی جے پی اور این ڈی اے کو بہار کے اقتدار سے اکھاڑ پھینک دینے کے بلند عزائم کے ساتھ انتخابی میدان میں سرگرم مہاگٹھ بندھن نے این ڈی اے پر سبقت حاصل کرتے ہوئے اور اپنی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 243 میں 30 سیٹوں پر مسلم امیدواروں کو کھڑا کر دیا ہے، جس سے مسلمانوں میں مثبت پیغام پہنچا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پہلے کے مقابلے اس مرتبہ بہار اسمبلی میں مسلم نمائندگی بڑھنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اس قدم سے مسلمانوں میں مہاگٹھ بندھن کے تئیں رجحان بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ مہاگٹھ بندھن میں شامل 3 اہم پارٹیوں میں سے آر جے ڈی نے 18، کانگریس نے 10 اور سی پی آئی ایم ایل نے 2 مسلم امیدوار انتخابی میدان میں اتارے ہیں۔ ان میں بیشتر امیدواروں کی پوزیشن قریبی حریف این ڈی اے کے مقابلے مضبوط نظر آرہی ہے۔ کم از کم ڈیڑھ درجن مسلم امیدواروں کے فتحیاب ہونے کے امکانات انتہائی روشن ہیں۔ ان لیڈران میں آر جے ڈی امیدواروں کے طور پر دربھنگہ کے کیوٹی سے ڈاکٹر فراز فاطمی، مشرقی چمپارن کے ڈھاکہ سے فیصل رحمان، سہرسہ کے سمری بختیار پور سے یوسف صلاح الدین، مدھوبنی کے بسفی سے آصف احمد، ارریہ کے جوکی ہاٹ سے شاہنواز عالم، کشن گنج کے ٹھاکر گنج سے مولانا سعود عالم، کشن گنج کے کوچہ دھامن سے سابق رکن اسمبلی مجاہد عالم اور سیوان کے رگھوناتھ پور سے اسامہ شہاب کی پوزیشن بہت ہی مضبوط بن گئی ہے۔ ان کے لیے دوہری خصوصیت خاندانی بیک گراؤنڈ بھی ہے، اور آرجے ڈی کے یہ سبھی مسلم امیدوار اپنے والد کی وراثت کو سنبھالنے کی دوبارہ کوشش کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ان میں اسامہ شہاب کو چھوڑ کر دیگر سبھی امیدوار پہلے بھی اسمبلی میں متعلقہ حلقہ کی نمائندگی کر کے عوام کے درمیان مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ مذکورہ بالا امیدواروں کے علاوہ آر جے ڈی امیدوار کے طور پر کانٹی سے سابق وزیر محمد اسرائیل منصوری، نرکٹیا سے سابق وزیر ڈاکٹر شمیم احمد، سمستی پور سے 4 بار سے رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے اخترالاسلام شاہین، سرسنڈ سے سابق رکن اسمبلی سید ابو دوجانہ کی پوزیشن بھی اس انتخاب میں مضبوط بن گئی ہے۔
اسی طرح کانگریس کے 10 مسلم امیدواروں میں شامل سرکردہ رہنما اور پی ایل پی لیڈر ڈاکٹر شکیل احمد خان قصبہ سے، رکن اسمبلی عابد الرحمان ارریہ سے، سابق وزیر عبدالجلیل مستان امور سے، سابق رکن اسمبلی قمرالہدیٰ کشن گنج سے اور سرگرم نوجوان رہنما منت رحمانی سوپول سے مہاگٹھ بندھن کے مشترکہ امیدوار کے طور پر انتخابی ریس میں اپنے حریفوں سے آگے نکلتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ سبھی کانگریس کے بہت ہی پرانے و قدآور رہنما رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار کانگریس اقلیتی شعبہ کے صدر عمیر خان بہار شریف حلقہ سے پہلی بار اسمبلی الیکشن لڑ رہے ہیں، مگر اپنی بے داغ شبیہ اور بے باک شخصیت کی وجہ سے سبھی حلقہ کے عوام میں بہت کم دنوں کے اندر ہی کافی مقبول ہو رہے ہیں۔ انہیں بھی مسلمانوں سمیت دیگر کمزور طبقات کی زبردست حمایت ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ سوپول سے منت رحمانی 2020 میں بھی جے ڈی یو کے قدآور رہنما اور تقریباً 35 برسوں سے مسلسل وزیر کے عہدے پر فائز وجندر پرساد یادو کو سخت ٹکر دے چکے ہیں۔
مہاگٹھ بندھن میں شامل بایاں محاذ کی سب سے بڑی پارٹی سی پی آئی ایم ایل نے اپنی 20 میں سے 2 سیٹوں پر مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ ان میں بلرامپور سے پارٹی رہنما محبوب عالم اور آرہ سے قیام الدین انصاری کو اس بار بھی اچھی حمایت ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ غور طلب یہ بھی ہے کہ 2020 کے اسمبلی انتخاب میں تمام 243 میں سے سب سے زیادہ تقریباً 75 ہزار ووٹوں سے کامیاب ہونے والے رکن اسمبلی محبوب عالم ہی تھے جنہوں نے بلرامپور سے مسلسل چوتھی بار کامیابی حاصل کی تھی۔
کیوٹی میں بی جے پی امیدوار اور موجودہ رکن اسمبلی مراری موہن جھا کو آر جے ڈی امیدوار ڈاکٹر فراز فاطمی نہ صرف سخت ٹکر دے رہے ہیں بلکہ ترقیاتی و فلاحی کاموں میں کمی کے سبب مراری جھا سے ناراض چل رہے برہمن اور کمزور طبقات کے ہندو ووٹروں کی بھی حمایت انھیں حاصل ہو رہی ہے۔ وہ پہلے بھی اس حلقہ کی نمائندگی کر کے عوام میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ انتخابی حلقہ ان کے والد سابق مرکزی وزیر محمد علی اشرف فاطمی کے پارلیمانی انتخابی حلقہ کے اندر آنے کی وجہ سے ان کی زبردست و غیر معمولی عوامی مقبولیت کا فائدہ بھی فراز فاطمی کو ملتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سمری بختیار پور میں نوجوان رکن اسمبلی یوسف صلاح الدین ایک بار پھر اپنے والد سابق رکن پارلیمنٹ چودھری محبوب علی قیصر کی وراثت کو سنبھالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہیں نوجوان طبقہ سمیت تمام مسلمانوں اور غریب و مزدور طبقات کے لوگوں کی اچھی حمایت مل رہی ہے۔ ڈھاکہ میں سابق رکن اسمبلی فیصل رحمان کی عوام میں مقبولیت ہنوز برقرار ہے اور وہ بھی انتخابی دور میں اپنے حریف سے آگے نکلتے نظر آ رہے ہیں۔ واضح ہو کہ ان کے والد سابق رکن پارلیمنٹ محمد مطیع الرحمان بھی اپنی بے داغ شبیہ کی وجہ سے عوام میں کافی مقبول تھے اور ایک قدآور مسلم رہنما تسلیم کیے جاتے تھے۔
بسفی میں آر جے ڈی کے سرکردہ رہنما و رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر فیاض احمد کی وراثت کو سنبھالنے کے لیے پہلی بار انتخابی میدان میں اترے آصف احمد موجودہ بی جے پی رکن اسمبلی ہری بھوشن ٹھاکر بچول کو نہ صرف سخت ٹکر دے رہے ہیں بلکہ ان کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ تیزی کے ساتھ فتح کے راستے پر چلتے نظر آ رہے ہیں۔ جوکی ہاٹ میں سیمانچل گاندھی کے مرحوم تسلیم الدین کی ایک بڑی وراثت کو سنبھالنے کے لیے شاہنوازعالم اس بار آر جے ڈی امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں، جو اپنے بھائی جن سوراج امیدوار سابق رکن پارلیمنٹ سرفراز عالم اور جے ڈی یو امیدوار سابق وزیر منظر عالم کے مقابلے مسلمانوں کی یکمشت حمایت حاصل کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ٹھاکر گنج میں آر جے ڈی امیدوار اور موجودہ رکن اسمبلی مولانا سعود عالم مسلسل دوسری بار انتخابی میدان میں اتر کر اپنے والد سابق رکن پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی کی مضبوط وراثت کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں جہاں مسلمانوں سمیت سبھی طبقات کے ذریعہ ان کی سادگی، ایمانداری اور ترقیاتی سرگرمیاں کافی پسند کی جا رہی ہیں۔ رگھوناتھ پور میں آر جے ڈی کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ قسمت آزما رہے نوجوان رہنما اسامہ شہاب بھی اپنے والد سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد شہاب الدین کی مضبوط وراثت کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بھی حلقہ کے عوام کی زبردست حمایت مل رہی ہے۔ کانٹی میں سابق وزیر اسرائیل منصوری جے ڈی یو امیدوار انجینئر اجیت کمار کو سخت ٹکر دے رہے ہیں۔
واضح ہو کہ لالو پرساد اور تیجسوی یادو نے پسماندہ مسلمانوں میں منصوری برادری کو فوقیت دیتے ہوئے سابقہ مہاگٹھ بندھن حکومت میں اسرائیل منصوری کو انفارمیشن ٹکنالوجی محکمہ کا وزیر بنایا تھا، اور اس بار بھی ان کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کو دیکھ کر سب سے پہلا ٹکٹ سونپا گیا۔ ان کی بھی پوزیشن کافی مضبوط نظر آ رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔