مودی حکومت کی ’فاشسٹ ہندوتوا‘ کو نظرانداز نہیں کرے گا بائڈن انتظامیہ!

بائڈن انتظامیہ کثیر جہتی مفادات کو دیکھتے ہوئے بھلے ہی مودی کے ٹرمپ حامی اقدام کو نظر انداز کر دے، لیکن مودی کی گھریلو زیادتیوں، ہندوتوا اور کشمیر کے ساتھ کیے گئے سخت برتاؤ کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں

بائیڈن اور مودی، تصویر گیٹی اور پی آئی بی
بائیڈن اور مودی، تصویر گیٹی اور پی آئی بی
user

آشیش رے

امریکہ اور دنیا کے لیے برا خواب آخر کار ختم ہو رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اب جو بائڈن کو صدر کے طور پر ذمہ داری سنبھالنے سے روکنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ لہٰذا امریکہ میں دھیرے دھیرے حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ اس برے خواب کو ختم ہونے کے ساتھ ہی دھیان بائڈین کی جیت پر جاتا ہے۔ یقیناً ہی یہ معمولی جیت نہیں۔ پریشان کرنے والی اس دلیل کے باوجود کہ ٹرمپ پھر بھی 7.4 کروڑ ووٹروں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب رہے، یہ جیت بہت خاص ہے۔ مشہور ووٹوں میں 70 لاکھ اور 4 فیصد کے فرق اور اہم الیکٹورل کالج ووٹوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کی 232 کے مقابلے 306 سیٹیں حاصل کرنے والے جو بائڈین کی جیت بتاتی ہے کہ امریکہ کے لوگوں نے انھیں پورے من سے عہدہ کے لیے منتخب کیا۔

حالانکہ انھیں وراثت میں ایسی دنیا ملی ہے جسے ڈونالڈ ٹرمپ نے کہیں زیادہ خطرناک بنا دیا، شمالی کوریا کے تاناشاہ کم جونگ نے ان کو لالی پاپ تھمایا، افغان طالبان پر بھروسہ کیا اور عراق کو دلدل میں چھوڑ دیا۔ اُدھر چین نے برطانیہ کے ساتھ کیے سمجھوتے کو توڑتے ہوئے ہانگ کانگ پر اپنے پنجے گڑا دیئے ہیں، اپنے لاکھوں ایغور مسلم اقلیتوں کو قید میں ڈال رکھا ہے اور ہندوستان کے ساتھ ایک جارحانہ محاذ کھول رکھا ہے۔


سی این این نے تبصرہ کیا ہے کہ صدر رہتے جو بائڈن کے ڈونالڈ ٹرمپ کے سلوک، پالیسیوں وغیرہ میں کافی کچھ بدلاؤ کا امکان ہے۔ بائڈن اور ہند نژاد نائب صدر عہدہ کے لیے منتخب کی گئیں کملا ہیرس کے لیے فوری چیلنج امریکہ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کا ہوگا کیونکہ کچھ ماہ کے اندر ہی امریکہ میں اس سے مرنے والوں کی تعداد 300000 ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کے سبب بدحال ہوئی معیشت میں واپس جان پھونکنے کا بھی بڑا چیلنج ہے۔

امید کی جا سکتی ہے کہ گلوبل وارمنگ کا مقابلہ اس جوڑی کے ایجنڈے میں اہم ہوگا۔ جو بائڈن نے اعلان کیا ہے کہ 20 جنوری کو امریکہ کے صدر کے طور پر حلف لینے کے ساتھ ہی وہ امریکہ کو ماحولیاتی تبدیلی پر ہوئے پیرس معاہدہ سے پھر جوڑ دیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے سابق وزیر خارجہ جان کیری کو کابینہ رینک کے ساتھ صدر کے خصوصی سفیر کے طور پر نامزد کرنے کا بائڈن کا فیصلہ بتاتا ہے کہ وہ اس ایشو پر کتنے سنجیدہ ہیں۔ براک اوباما کے صدر رہتے امریکہ نے پیرس میں اس معاہدہ پر دستخط کیے تھے اور تب جان کیری کا اس میں اہم کردار رہا تھا۔


کملا ہیرس کو امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر کے طور پر نامزد کرنے سے لے کر بائڈن نے اپنی کابینہ کو بڑے ہی اثردار طریقے سے منتخب کیا ہے۔ انھوں نے کیوبائی امریکی الیزاندرو میورکاس کو وزیر داخلہ اور ایویلے ہینس کو پہلی خاتون قومی خفیہ ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کیا ہے۔ سی آئی اے کی ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کر چکیں ہینس 17 امریکی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈنیشن کا کام کریں گی۔ دلچسپ ہے کہ بائڈن کی فہرست میں افسر سطح پر جن جن لوگوں کے نام شامل ہونے کی بات کی جا رہی ہے، ان میں سے زیادہ نے اس طرح کی خبروں کی تردید نہیں کی ہے۔

بہر حال، بائڈن نے وزیر خارجہ کے طور پر اینٹی بلنکین کو نامزد کیا ہے۔ وہ اوباما حکومت میں نائب وزیر خارجہ تھے۔ وہ ایک تجربہ کار شخص ہیں۔ مانا جا سکتا ہے کہ ان کی ترجیح ہوگی- یوروپی یونین کے ساتھ ٹرانس-اٹلانٹک اتحاد کو بحال کرنا جسے ٹرمپ نے تباہ کر دیا، چین کی وسعت پسند سیاست کو دیکھتے ہوئے ایشیا میں امریکہ کی ایک سرگرم حالت کو پھر پانا، طالبان کے پھر سے سر اٹھانے کو دیکھتے ہوئے اس بات کا تجزیہ کرنا کہ افغانستان سے فوج واپس بلانے کا ٹرمپ کا فیصلہ درست تھا یا نہیں، ٹرمپ انتظامیہ کی نرمی کے برعکس شمالی کوریا کے وسیع تباہی والے اسلحہ پروگراموں پر پھر سے سختی سے روک لگانا، اسرائیل کے کہنے پر ایران کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ سے ہٹ جانے کا پھر تجزیہ، اور عالمی صحت ادارہ کے ایک رکن کی شکل میں امریکہ کی واپسی جیسے اقدام۔


قومی سیکورٹی مشیر کی شکل میں بائڈن نے جیک سلون کو منتخب کیا ہے۔ اوباما کے پہلے دور کے دوران وہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے معاون تھے، اس کے بعد وہ بائڈن کے این ایس اے تھے جب وہ اوباما انتظامیہ میں نائب صدر تھے۔ مانا جاتا ہے کہ انھوں نے ایران نیوکلیائی معاہدہ پر بات چیت کے دوران اہم کردار نبھایا تھا۔ نامزد لوگوں میں سے زیادہ تر تجربہ کار لوگ ہیں اور کسی بھی حالات کا سامنا کرنے میں اہل ہیں، لیکن سینیٹ کی جانچ کے بعد ہی ان کی طے عہدوں پر تعیناتی ہو سکے گی۔ ان لوگوں کے ناموں کا انکشاف کرتے ہوئے بائڈن نے کہا ’’خارجہ پالیسی اور قومی سیکورٹی ٹیم میرے لیے اصل یقین کو مضبوط کرتی ہے کہ امریکہ تبھی سب سے زیادہ مضبوط ہوگا جب وہ اپنے معاونین کے ساتھ کام کرے۔ یہ وہ ٹیم ہے جو دکھاتی ہے کہ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ وہ دنیا کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایک بار پھر وہ سرخرو ہوگا۔‘‘

ایسا اندازہ ہے کہ ملک کے سامنے کھڑے معاشی بحران اور ایک کروڑ لوگوں کو بے روزگاری سے باہر نکالنے کا اہم ذمہ 74 سالہ جینیٹ یلین کو ملنے والا ہے۔ وہ ایک مشہور ماہر معیشت ہیں اور امریکی فیڈرل ریزرو، یعنی سنٹرل بینک کی سربراہ رہ چکی ہیں اور بل کلنٹن کے صدر رہتے ان کی مشیر کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔


ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ وزیر دفاع کون بنے گا۔ لیکن کاش پتیل کے موجود کارگزار وزیر دفاع کے چیف آف اسٹاف ہونے سے ایک طرح کا تنازعہ تو کھڑا ہو ہی گیا ہے۔ ایک صدر کے جانے اور دوسرے کے آنے کے درمیان کے انفیکشن عمل میں کاش پٹیل ایک اہم کردار ہو گئے ہیں اور تنازعہ اسی وجہ سے ہے۔ پٹیل کی فیملی گجرات سے مشرقی افریقہ ہوتے ہوئے امریکہ پہنچی ہے اور پٹیل ٹرمپ کے وفادار ہیں جنھوں نے بائڈن کے بارے میں تمام گھٹیا باتیں پھیلائیں۔ پنٹاگن میں ان کے معاونین کو بھی اس بات کا اندیشہ ہے کہ انھیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے، انھیں نبھانے کے معاملے میں وہ کھرا اتر پائیں گے۔

نریندر مودی نے تو انتخاب میں کھل کر ٹرمپ کا ساتھ دے کر ہندوستان کے لیے ایک عجیب سی حالت بنا دی ہے۔ اگر بائڈن انتظامیہ دو فریقی تعلقات اور یکسر کثیر جہتی مفادات کو دیکھتے ہوئے اس غیر معمولی بے وقوفی کو نظرانداز کر دیں، تب بھی اس سے مودی کی گھریلو زیادتیوں، فاشسٹ ہندوتوا نظریات اور جموں و کشمیر کے ساتھ کیے گئے سخت سلوک کی طرف سے آنکھیں بند کرنے کا امکان نہیں ہے۔ حالانکہ یہ درست ہے کہ چین کی طرف سے ڈوکلام اور لداخ میں پیش آ رہے خطرے میں امریکہ کے ہی مفاد میں ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا رہے۔


ہندوستان سے رشتوں کے معاملے میں لازمی طور پر کملا ہیرس کا اہم کردار ہوگا۔ جب مودی نے 1947 میں ہندوستان کے ساتھ انضمام کی شرط کے طور پر جموں و کشمیر کو دی گئی خودمختاری کو ختم کیا تو کملا ہیرس نے کہا تھا ’’ہمیں کشمیریوں کو یاد دلانا ہوگا کہ وہ دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔‘‘ اس کے بعد وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس میٹنگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا جس میں امریکی نمائندہ وفد کی رکن کے طور پر ہند نژاد پرملا جیپال بھی تھیں۔ جے شنکر نے یہ ناراضگی اس لیے نکالی کہ پرملا جیپال نے مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے خلاف امریکی ایوان میں تجویز رکھی تھی۔ لیکن کملا ہیرس کو یہ بات ناگوار گزری تھی اور انھوں نے ٹوئٹ کیا تھا ’’کسی غیر ملکی حکومت کے لیے کانگریس کو یہ بتانا غلط ہے کہ کیپٹل ہل میں ہونے والی میٹنگ میں کون حصہ لے اور کون نہیں۔ میں جیپال کے ساتھ ہوں۔‘‘

نیویارک میں کونسل آن فارن رلیشنز کے سینئر فیلو ایلیسا آئرس کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی سے جڑی ترجیحات کے معاملے میں ہندوستان تو امریکی راڈار میں دور دور تک نہیں ہے۔ سچائی تو یہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔