اعلیٰ ذاتوں کا بھارت بند پسماندہ ذاتوں کی بڑی کامیابی

دلت بند کے خلاف آج کا ’بھارت بند‘ جمہوری انداز میں اپنی ناراضگی اور بات کہنے کا طریقہ تو ہو سکتاہے، لیکن 8 روز کے وقفہ کے بعد احتجاج کرنا دراصل ناراضگی کم منصوبہ زیادہ نظر آتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

بند، احتجاج ،مظاہرے کسی بھی جمہوری سماج کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور یہ اس بات کے ضامن ہوتے ہیں کہ سماج میں عوام کے پاس اپنی بات رکھنے کی آزادی ہے ۔ بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کسی بھی آزادی کا غلط اور ایسا استعمال نہ ہو جس سے قوم ، ملک اور عوام کا نقصان ہو، لیکن نقصان نہ ہو کے نام پر ان کا گلا بھی نہیں گھونٹا جانا چاہئے کیونکہ گلا گھونٹنے کا سیدھا مطلب جمہوریت کا گلا گھوٹنے کے مترادف ہوگا۔ 2اپریل کو ایس سی -ایس ٹی ایکٹ کو سپریم کورٹ کے ذریعہ نرم کرنے کے ایک حکم کے خلاف دلت سماج نے سڑکوں پر اتر کر اس فیصلے پر حکومت کی مداخلت کی مانگ کی ۔ اس احتجاج کا نام بھی’ بھارت بند‘ تھا اور اس میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ کئی قیمتیں جانیں بھی گئیں۔ اس احتجاج میں ایک تصویر یہ بھی سامنے آئی کہ پورے احتجاج کو بدنام کرنے کے لئے کچھ دوسری ذات کے لوگوں نے تشدد کا سہارا لیا ، جس میں گوالیار کے واقعہ پر بہت بحث بھی ہوئی۔

کہا کچھ بھی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج (10اپریل 2018) ریزرویشن کے خلاف جو ’بھارت بند‘ ہو رہا ہے وہ بنیادی طور پر2 اپریل کے دلت بند کے خلاف ہے۔ احتجاج اور بند جمہوری انداز میں اپنی ناراضگی اور بات کہنے کے طریقہ ہو سکتے ہیں لیکن کسی ایک احتجاج کے خلاف صرف 8روز کے وقفہ کے بعد احتجاج کرنا دراصل ناراضگی کم منصوبہ زیادہ نظر آتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ ایک سماج کے دو طبقوں کو لڑانے کا ہے اور ان کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کا ہے تو ایک بات تو واضح ہے کہ اس طرح کے عمل سے ملک کا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا۔

یہ بظاہر سامنے سے نظر آنے والی باتیں ہیں لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آزادی کے70 سال بعد اگر ہندو سماج کی اعلی ذات کے لوگ سڑکوں پر اتر تے ہیں اور وہ بھی اپنے مطالبات کے لئے ملک گیر بند کا اعلان کرتے ہیں تو یہ ملک ، دلت ، پسماندہ اور غریب عوام کی زبردست کامیابی ہے ۔ یہ ایک سیدھا پیغام ہے کہ جو اعلی ذاتیں اعلی کے نام پر ملک پر راج کرتی رہی ہیں ان کے لئے بھی زمین تنگ ہو سکتی ہے یا ہونے لگی ہے ۔ ویسے تو کئی سال پہلے سے شمالی ہندوستان کے برہمن سماج میں ایک بے چینی نظر آ رہی ہے اور ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت سازی میں ان کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔وہ یہ سوال بھی کرتے رہے ہیں کہ ریزرویشن آخرکب تک اور وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔برہمن سماج اپنے اجلاس کرتا رہا ہے اور اپنی بے چینی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ ان کی یہ بے چینی بغیر وجہ کے نہیں ہے کیونکہ اب15 سال ہونے جا رہے ہیں جب ملک کے وزیر اعظم کا تعلق برہمن سماج سے نہیں ہے۔ پہلے دس سال منموہن سنگھ اور اب نریند رمودی جبکہ آزادی کے بعد سے ملک میں ایک عرصہ تک برہمن وزیر اعظم ہی رہا ہے۔ اس لئے اس بڑھتی بے چینی کا کہیں تو اظہار ہونا تھا آخر وہ اب دلت ریزرویشن کے خلاف نکل کھڑا ہوا ہے اور یہ ملک کے جمہوری نظام کی ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس نطام کی وجہ سے اعلی ذاتوں اور دلت و پسماندہ ذاتوں کے بیچ کا فرق کم ہو رہا ہے اور دونوں ہی اپنے مطالبات کو لے کر سڑکوں پر اتر رہے ہیں یعنی اعلی ذات بھی محرومی سے دو چار ہیں۔

کچھ لوگ اس کو دلتوں کے خلاف سازش بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سازش کے نتیجہ میں اعلی ذاتوں میں احساس کمتری بڑھے گی۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ملک کو زبر دست نقصان ہوگا کیونکہ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصہ کی صلاحیتیں اس جھگڑے کی نذر ہو جائیں گی ۔ نوجوانوں کی جو صلاحیتیں اور قووتیں ملک کی ترقی و تعمیر میں صرف ہونی چاہئے تھیں وہ سڑکوں پر اس بات کے لئے صرف ہوں گی کہ ہمارے اوپر ظلم ہو رہا ہے اور ہمارے اوپر ظلم کے لئے ذمہ دار وہ ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی عوام میں موجود اس طرح کی شدید تفریق سے ملک کی ترقی بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان سب چیزوں کو انتخابی سیاست کی نظر سے نہ دیکھے بلکہ ملک کے مفاد کو مقدم رکھے ، کیونکہ سماج کے طبقا ت میں خلیج بڑھنی نہیں بلکہ ہموار ہونی چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔