گزشتہ 8 سالوں میں سوچی سمجھی پالیسی کے تحت مودی حکومت نے ’سراب‘ تیار کر دیا

جب تالی-تھالی بجوائی گئی، دیے روشن کروائے گئے، تو لگتا تھا کہ انھیں ’نمائش‘ کا شوق ہے، لیکن گھر گھر ترنگا سے یہ غلط فہمی دور ہو گئی، انھیں تماشوں کا شوق نہیں ہے بلکہ یہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔

نریندر مودی اور امت شاہ، تصویر آئی اے این ایس
نریندر مودی اور امت شاہ، تصویر آئی اے این ایس
user

میناکشی نٹراجن

جب تالی اور تھالی بجوائی گئی، دیے روشن کروائے گئے، تو لگتا تھا کہ انھیں ’نمائش‘ منعقد کرانے کا شوق ہے، لیکن گھر گھر ترنگا سے یہ غلط فہمی دور ہو گئی، انھیں تماشوں کا شوق نہیں ہے بلکہ یہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اسپانسرشپ، حوصلہ افزائی اور انتظامی ’دھوم دھام‘ کے بغیر کسی بھی ’سراب‘ (دھوکہ) کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں سوچی سمجھی پالیسی کے تحت سراب تیار کیا گیا ہے۔ اس ملک کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کا 75واں سال بھی اس کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ سراب تیار کرنے کا نام کسی رنجش یا سماجی دانشمندی کا رونا رونے کی علامت نہیں ہے۔ سچائی کا اظہار ہے۔ حکمرانوں نے بڑی محنت سے اس کو تیار کیا ہے۔

پہلا سراب پورے ملک کی معشت سے جڑا ہے۔ یہ بار بار مشتہر کیا جاتا ہے کہ دنیا میں ہندوستانی معیشت سب سے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ بڑھتی معاشی نابرابری، مہنگائی، بے روزگاری، غریبی، نقص تغذیہ، بھکمری کے تمام اعداد و شمار سراب کے دھوکے سے پردہ اٹھاتے ہوئے ریت کے خشک ذرات ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا کے معتبر اداروں کے اعداد و شمار کو اقتدار کی اندھی تقلید میں مسترد کرنے سے سچائی بدل نہیں جاتی۔ سب سے غریب کے پاس محض 6 فیصد ملکیت کا حصہ ہے، جب کہ سب سے امیر 1 فیصد کے پاس ایک تہائی اور سب سے امیر 10 فیصد کے پاس دو تہائی ملکیت ہے۔ نجی ملکیت لگاتار بڑھی ہے، اور عوامی ملکیت گھٹی ہے۔ 2021 کے عالمی ہنگر انڈیکس میں ہندوستان 116 ممالک کی فہرست میں 101ویں مقام پر ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ان حالات کو مزید سنگین بناتی ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکونومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2021 میں مزدوری کے لائق عمر کے 52 کروڑ لوگوں میں سے 4.76 کروڑ بے روزگار تھے۔ یعنی کہ جی ڈی پی بھلے ہی بڑھی ہو، روزگار پیدا نہیں ہو پا رہا ہے۔


ہندوستان کے نقشے میں سب سے زیادہ غریبی، ہجرت، منتقلی، سماجی استحصال جن علاقوں میں ہے وہیں سب سے زیادہ ماحولیاتی وسائل کا استعمال، چیر پھاڑ، کانکنی بھی ہو رہی ہے۔ اس استعمال میں وہاں کے مقامی باشندوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ حالانکہ انہی کی بستیاں ماحولیات تحفظ کے نام پر اجاڑی جاتی ہیں۔ جب کہ عالمی نابرابری انڈیکس کے مطابق ہندوستان کے غریب طبقہ کا کاربن اخراج محض 2.2 میٹرک ٹن فی کس سالانہ ہے۔ سب سے امیر طبقہ کا اوسطاً 32.4 میٹرک ٹن ہے۔ اگر ماحولیاتی تحفظ ’جل، جنگل، زمین‘ کو روزگار سے جوڑ کر پنچایتوں کے ذریعہ سے کام ہو تو منظرنامہ بدل سکتا ہے۔

لیکن سراب کا رویہ ہوتا ہے کہ وہ پرکشش ہوتا ہے۔ سراب تیار کرنے والوں کو بھی کچھ دنوں میں اپنا جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔ ملک کے بڑے طبقہ سے تو سراب کی حقیقت چھپانے کے لیے فرقہ وارانہ نفرت کا کامیاب تجربہ کیا جا رہا ہے۔

لیکن دنیا کے سامنے طلسم ٹوٹتا جا رہا ہے۔ ہر انڈیکس کو ہم غلط ٹھہرا کر صحیح ثابت نہیں ہو جائیں گے۔ یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے مضبوط پڑوسی ملک چین نے عالمی جغرافیائی حکمت عملی اور سیاست کا علاقہ ہی بدل دیا ہے۔ پرانے ریشم مارگ سے ہو کر گزرنے والی ان کی نئی سڑک کاروباری نظام کی توسیع کا اعلان ہے۔

ہمارے پورے پڑوس کو انھوں نے کسی نہ کسی شکل میں اپنا شراکت دار بنا ہی لیا ہے۔ بھوٹان مستثنیٰ ہے۔ یہاں تک کہ سارک ممالک میں ہندوستان کو چھوڑ کر سبھی رکن ممالک چین کو بھی شامل کرنے کی پرزور پیروی کر رہے ہیں۔

چین میں شطرنج کی طرح ایک اور کھیل چلن میں ہے۔ جہاں آمنے سامنے کے داؤ نہیں ہوتے۔ صدیوں کا ہدف رکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے گھیرابندی کی جاتی ہے۔ ہمارے تینوں اطراف کی ساحلی سرحد سے لگے ممالک سے شراکت داری کر کے چین بندرگاہ بنا چکا ہے۔ ہماری سرحد تک گھس چکا ہے۔ لیکن حکومت نے دوسرے بڑے سراب سے ان سبھی سچائیوں کو چھپا رکھا ہے۔ ہندوستان عالمی گرو بننے جا رہا ہے اور ہمارے وزیر اعظم جی کی صلاح کے بغیر دنیا کا کوئی ملک کسی طرح کا بھی فیصلہ نہیں لیتا۔


اس سراب میں ہم اتنا پھنس چکے ہیں کہ اب ہم الگ تھلگ پڑے ہیں۔ جب ہماری حکومت کہتی ہے کہ کوئی دراندازی نہیں، تو دنیا کی دوسرے سپر پاور سے کیا اسٹریٹجک معاہدہ ہو پائے گا، اس سپر پاور کو تو ویسے بھی ہم سے کوئی ہمدردی نہیں ہوگی۔ اپنی اسلحہ صنعت کو فروغ دینے کے لیے لگاتار نئے جنگی علاقے چاہیئں۔ یوکرین میں وہی ہو رہا ہے۔ کہیں ہندوستان دوسرا یوکرین نہ بن جائے جہاں دو سپر پاور آپس میں ٹکرا جائیں۔ ہم مغربی سپر پاور کی اسلحہ صنعت کے بازار کا صارف بن جائیں گے۔ اس کا استعمال ہمارے ہی لوگوں پر ہوگا۔ ان دونوں سرابوں کا وتق رہتے ختم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ جدید دور میں معاشی ترقی ممالک کے درمیان کی اسٹریٹجک پالیسی کا اہم سلسلہ ہے۔ سپر پاورس معاشی بحران، بے روزگاری سے پریشان طبقہ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ کچھ نہیں تو پاس پڑوس پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ کمزور ملک سے کوئی جڑنا نہیں چاہتا۔ اسی طرح ہماری اسٹریٹجک پالیسی کو بھی جھولا جھلانے جیسے ’تماشوں‘ کے انعقاد سے باز آنا ہوگا۔ ورنہ ہمیں بڑے چیلنج کا اچانک سامنا کرنے کی نوبت آ سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔