جارحانہ راشٹر واد کا مقابلہ گاندھی واد سے کرنے کی کوشش

ٹی وی چینلوں نے راشٹرواد کے نام پر ایسے مضحکہ خیز موضوعات پر پرائم ٹائم میں مباحثہ کرائے جن کے بارے میں کوئی سنجیدہ صحافی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً راہل گاندھی کا مسعود اظہر جی کہہ دینا وغیرہ وغیرہ۔

تصویر اے آئی سی سی
تصویر اے آئی سی سی
user

عبیداللہ ناصر

پلوامہ المیہ اور اس کے جواب میں ہندوستانی فضائیہ کا بالا کوٹ کے دہشت گرد کیمپوں پر حملے کے بعد بی جے پی نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ملک میں جارحانہ قوم پرستی کا ماحول بنانے کی کوشش کی جس میں اس کو ہندوستانی میڈیا خاص کر چینلوں کا بھرپور تعاون ملا، بی جے پی کارکنوں نے کئی دنوں تک محلہ محلہ جلوس نکال کر نہ صرف اپنی نام نہاد راشٹر بھکتی کا ثبوت دیا بلکہ جس طرح کھلے عام ماں, بہن کی گالیاں دیں اس نے ہر سنجیدہ انسان کو ان کے برانڈ کے راشٹرواد کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی گھر میں گھس کر ماروں گا جیسے سڑک چھاپ ڈائیلاگ بول کر ہندوستان کے ایک بالغ جمہوی ملک ہونے پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا، دشمن کو سخت الفاظ میں جواب دینا ایک الگ بات ہے اور وزیر اعظم کا ایسے سستے سڑک چھاپ موالیوں جیسے الفاظ بولنا بالکل الگ بات-

بی جے پی نے اصل میں اس کارروائی کے ذریعہ ملک میں جارحانہ قوم پرستی کا ماحول بنا کر عوام کو درپیش اصل مسائل جیسے برھتی بے روزگاری، کسانوں کے مسائل، جی ایس ٹی سے برباد ہوتے چھوٹے کاروبار، ڈوبتے بنک اور دیگر عوامی زمرہ کے اداروں، نوٹ بندی سے تباہ معیشت اور سب سے بڑھ کر رافیل معاملہ میں پھنستی گردن سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی، جس میں اسے الیکٹرانک میڈیا کا بھرپور تعاون ملا، ان چینلوں نے راشٹرواد کے نام پر ایسے ایسے مضحکہ خیز موضوعات پر پرائم ٹائم میں مباحثہ کرائے جن کے بارے میں کوئی سنجیدہ صحافی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً راہل گاندھی کا مسعود اظہر جی کہہ دینا وغیرہ وغیرہ۔

در اصل بی جے پی کو فروعی مسائل اٹھا کر انھیں سیاسی بحث کا موضوع بنا دینے میں مہارت حاصل ہے آنجہانی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ایک بار کہا تھا کہ بی جی پی اپنے مخالفین کے سامنے اتنی بڑی علامتیں کھڑی کر دیتی جن کا جواب دے پانا ذمہ دار، سنجیدہ اور مدبر سیاست دانوں کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے ہمارے سامنے بھگوان رام کو کھڑا کر دیا ہے اب سوچیے رام سے کیسے لڑا جا سکتا ہے، یہی اس بار بھی کیا گیا سیاسی مخالفین کے سامنے فوج اور پاکستان کو کھڑا کر دیا گیا اور فوجیوں کی بہادری، قربانی اور شہادت سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بے شرم کوششیں کی جانے لگیں اور اس پر جب سیاسی پارٹیوں نے سوال اٹھائے تو ان پر ملک دشمنی اور پاکستان نوازی کا الزام لگایا جانے لگا، جیسے حب الوطنی اور دہشت گردی سے جنگ کرنے کا پورا ٹھیکا بی جے پی نہیں بلکہ صرف اور صرف نریندر مودی جی نے لے رکھا ہے، مودی ہے تو ممکن ہے جیسے جملے فضا میں اچھال کر نہ صرف موجودہ بلکہ سابق سیاست دانوں اور بر سر اقتدار رہ چکے لیڈروں کی توہین کی جا رہی ہے۔

جارحانہ بلکہ شاطرانہ قوم پرستی کے اس ماحول میں احمدآباد میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد ہوئے جلسہ عام میں کانگریس کی نو منتخب جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرہ کی تقریر چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈے بادلوں جیسا سکون دیتی ہے- انہوں نے عوام کو بتایا کہ بی جے پی کا راشٹرواد نفرت تشدد اورجنگی جنون پر مبنی ہے، جبکہ کانگریس کے پاس مہاتما گاندھی کا فلسفہ ہے اور ان کا راشٹرواد محبت، بھائی چارہ، رواداری اور پرامن بقائے باہمی پر مبنی ہے۔

امیٹھی اور رائے بریلی سے باہر شاید پرینکا گاندھی کی یہ پہلی عوامی تقریر تھی لیکن انہوں نے الفاظ کے انتخاب اور عوام سے وابستہ ہونے کے انداز نے سب کو ان کا گر ویدہ بنا دیا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ حب الوطنی، دیش پریم، راشٹر واد، بھائی چارہ اور رواداری پر مبنی ہے، میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ اس سے بڑی اور کوئی حب الوطنی نہیں ہوسکتی کہ آپ بیدار رہیں، آپ کی بیداری ہی آپ کا ہتھیار ہے، یہ ایسا ہتھیار ہے جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا، کسی کو چوٹ نہیں پہنچاتا، بلکہ سب کو آپ سے جوڑتا ہے اور آپ کو مضبوط بناتا ہے۔

اس طرح پرینکا گاندھی نے بی جے پی کی جارحانہ قوم پرستی کے مقابلہ میں گاندھی جی کی عدم تشدد، بھائی چارہ اور محبت والی قوم پرستی کو سامنے کھڑا کر دیا ہے، نفرت کے مقابلہ محبت، جھوٹ کے مقابلہ سچ اور باطل کے مقابلہ حق ہمیشہ کامیاب ہوا ہے، یہ نظام قدرت ہے اس پر وقتی طور سے بادل چھا سکتے ہیں لیکن حتمی فاتح حق، سچ اور محبت کی ہی ہوتی ہے۔ پرینکا نے کانگریسی کارکنوں کو یہی آزمودہ ہتھیار پکڑا دیا ہے۔

انہوں نے کارکنوں کو یہ بھی تلقین کی کہ وہ بیروزگاری، کسانوں، کاروباریوں اور محروم طبقوں کے اصل  مسائل کو ہی انتخابی موضوع بنائیں اور بی جے پی کے بُنے جال میں نہ پھنسیں، ظاہر سی بات ہے کہ پانچ سال کے اپنے دور حکومت میں مودی جی نے ان تمام محاذوں پر ملک کو چوپٹ کر کے رکھ دیا ہے، نوجوانوں میں بیروزگاری کی حالت تو یہ ہے کہ اس حقیقت کو ان سے پوشیدہ رکھنے کے لئے مودی حکومت کو اس کے اعداد و شمار نہ جاری کرنے کا فیصلہ کر نا پڑا، لیکن آج کے اس دور میں عوام سے کچھ بھی پوشیدہ رکھ پانا ممکن نہیں ہے۔

تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح قریب 8 فیصدی پہنچ چکی ہے، جو 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے، اسی لئے نوجوانوں کو راشٹرواد 'ہندوتوا' اور پاکستان کی افیم پلا کر مدہوش رکھنا بی جے پی کی سب سے بڑی سیاسی ضرورت ہے۔ پرینکا گاندھی نے اس کا متبادل Narrative عوام کے سامنے رکھنے کی پارٹی کارکنوں کو ہدایت دی ہے، اب کانگریس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ میڈیا کے شور بی جے پی کارکنوں کی جنونی جارحانہ مہم اور سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے ہو رہی گالی گلوج کے ماحول میں بھی بی جے پی قیادت کو اصل موضوع پر ہی لب کشائی کے لئے مجبور کرے، اسی کے ساتھ ہی بوتھ سطح پر کارکنوں کا جال پھیلانا بھی ایک اہم مسلہ ہے، کیونکہ ہندی بیلٹ خاص کر اتر پردیش میں اس کی یہی سب سے بڑی کمزوری ہے اور اسی کمزوری کے ساتھ ہی اسے اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنا ہے۔ پرینکا گاندھی نے عوام اور کارکنوں دونوں کو اپنی جانب متوجہ تو کر لیا ہے لیکن اسے ووٹوں میں تبدیل کرنے کا پہاڑ جیسا چیلنج بھی ان کے سامنے کھڑا ہے-

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔