گجرات میں تبدیلی کی ہوا

Getty Images
Getty Images
user

سہیل انجم

اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ شدید ذہنی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ انھیں گجرات کے اسمبلی انتخابات میں تبدیلی کی ہوا شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ وہ کچھ بھی کرکے متوقع منظرنامہ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہاں بی جے پی کی ساکھ تو داؤ پر لگی ہی ہے، خود وزیر اعظم اور امت شاہ کا وقار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ وہاں 19 برسوں سے بی جے پی برسراقتدار ہے۔ نریندر مودی بارہ برسوں تک گجرات کے بے تاج بادشاہ رہے۔ لیکن وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ تبدیلی قانون قدرت ہے۔ اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ریاست کی عوام نے تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ریاست میں پٹیل، دلت اور او بی سی یعنی دیگر پسماندہ طبقات کی آبادی کل آبادی کا نصف سے زائد ہے۔ یہ طبقات بی جے پی کا ووٹ بینک رہے ہیں۔ لیکن اب یہ تینوں اس سے ناراض ہیں۔ ان طبقوں کی قیادت تین نوجوان کر رہے ہیں۔ ان کے نام ہیں ہاردک پٹیل، الپیش ٹھاکور اور جگنیش میوانی۔ الپیش تو کانگریس میں شامل ہو چکے ہیں۔ ہاردک کی گجرات کے کانگریس انچارج اشوک گہلوت سے ملاقات ہو چکی ہے اور کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی سے ہونے والی ہے۔ انھوں نے بی جے پی کے خلاف ہلہ بول دیا ہے۔ ہاردک پٹیل، پٹیل برادری کو ریزرویشن دینے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے ان کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا اور ان پر متعدد معاملات قائم کرکے انھیں جیل میں ڈال دیا تھا۔ اس تحریک کے دوران پولس کی گولی سے متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکور دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو انصاف دلانے کی تحریک کے سربراہ ہیں۔ ایک تو کانگریس میں جا چکے ہیں اور باقی دو نے اس کے تئیں نرم روی کا مظاہرہ کیا ہے۔

نریندر مودی کے گجرات کے وزیر اعلی رہنے کے دوران گجرات کے ترقیاتی ماڈل کا خوب خوب پروپیگنڈہ کیا گیا اور یہ بتایا گیا تھا کہ اگر یہی ماڈل پورے ملک کے لیے اپنایا جائے تو ملک زبردست ترقی کرے گا۔ اس پروپیگنڈے اور دیگر باتوں کے فریب میں آکر ملک کی عوام نے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو جم کر ووٹ دیا جس کے نتیجے میں وہ بے مثال کامیابی کے ساتھ برسراقتدارمیں آگئی۔ لیکن اس کے متعدد فیصلے عوام مخالف رہے ہیں۔ خاص طور پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے غریبوں کی کمر توڑ دی۔ یہی صورت حال گجرات میں بھی ہے۔ وہاں بھی چھوٹے کاروباریوں کی تجارت ختم ہو گئی ہے۔ لہٰذا وہ بھی بی جے پی سے ناراض ہیں۔ جہاں تک گجرات کے ترقی ماڈل کی بات ہے تو جاننے والے جانتے ہیں اور اہل گجرات تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈہ فرضی ہے،بے بنیاد ہے اور گمراہ کن ہے۔ اس کا ثبوت گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی تقریر سے بھی مل گیا۔ گزشتہ دنوں جب انھوں نے ریاست کا دورہ کیا اور ایک ریلی سے خطاب کیا تو اپنی عادت کے مطابق کانگریس کو پانی پی پی کر گالی دی۔ اس گالی گفتار کے دوران انھوں نے خود اپنے ترقیاتی ماڈل کی قلعی کھول دی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ریاست کے وزیر اعلی تھے لیکن مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اور کانگریس نے انھیں کام نہیں کرنے دیا، ان کے تمام ترقیاتی پروجکٹوں کو روک دیا اور اب جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت بن گئی ہے تو ان تمام پروجکٹوں پر کام شروع ہو گیا ہے۔ ان کے اس الزامی بیان پر اشوک گہلوت نے بجا طور پر کہا ہے کہ اس کا مطلب یہی ہوا کہ گجرات میں کام نہیں ہوا ہے، ترقی نہیں ہوئی ہے۔ مودی اور بی جے پی کا ترقی کا پروپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔

ابھی تین سال قبل ہی پورے ملک میں مودی لہر اٹھی ہوئی تھی۔ ہر جگہ ’’ہر ہر مودی‘‘ کا نعرہ لگ رہا تھا۔ لیکن تین سال کے قلیل عرصے میں ہی جس طرح ان کا جادو چھو منتر ہوا ہے وہ مودی اینڈ کمپنی کے لیے کسی برے خواب سے کم نہیں۔ اب تو ہر ہر مودی کی جگہ پر ’’ہائے ہائے مودی‘‘ کے نعرے لگنے لگے ہیں۔ اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو مودی کے ہوم اسٹیٹ گجرات کا دورہ کیا جا سکتا ہے۔ ریاست میں تبدیلی کی ہوا دیکھنی ہو تو وزیر اعظم مودی اور کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کے جلسوں میں آنے والے لوگوں کی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مودی کے حالیہ جلسوں میں جتنی کرسیاں بھری ہوئی تھیں اتنی ہی خالی بھی تھیں۔ بی جے پی کی یاترا کے آخری پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا ، جس کو مودی نے خطاب کیا تھا، سات لاکھ افراد آئیں گے۔ لیکن آئے محض ایک لاکھ۔ جبکہ راہل گاندھی کے جلسوں میں بھاری بھیڑ نظر آرہی ہے۔ اب ان کی باتیں لوگ زیادہ سنجیدگی سے سننے لگے ہیں۔ وہ جب حکومت کے عوام مخالف فیصلوں پر اپنے طنزیہ تیر برساتے ہیں تو لوگوں کو اچھا لگتا ہے۔

گجرات میں کانگریس کے حق میں فضا بظاہر تبدیل تو ہوئی ہے البتہ کانگریس کو اسے نہایت ہوشیاری سے برقرار رکھنا ہوگا۔ کیونکہ امت شاہ اور مودی کی جوڑی کسی بھی قیمت پر نہیں چاہے گی کہ گجرات میں بی جے پی کی شکست ہو اور کانگریس جیت جائے۔ اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ یہ الیکشن محض الیکشن نہیں ہے بلکہ ایک انتخابی مہابھارت ہے۔ بی جے پی اس مہابھارت کو جیتنے کے لیے ’’سام دام دنڈ بھید‘‘ تمام ہتھیاروں کا استعمال کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ الیکشن عوام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بھی کرنا ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ کانگریس کا مقابلہ ایسے شاطر لوگوں سے ہے جو اپنی فتح کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

ریاست میں تبدیلی کی ہوا سے بی جے پی بوکھلا اٹھی ہے۔ اس لیے اس نے خرید فروخت کا بازار گرم کر دیا ہے۔ ایک پاٹیدار لیڈر نریش پٹیل نے ایک پریس کانفرنس کرکے بی جے پی کے اس گھناؤنے کھیل کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بی جے پی کی جانب سے انھیں ایک کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی اور دس لاکھ روپے پیشگی دیے گئے۔ انھوں نے صحافیوں کے سامنے وہ دس لاکھ روپے بھی رکھ دیے۔ بی جے پی نے توڑ جوڑ کے اس کھیل میں اس سے پہلے اس وقت کامیابی حاصل کی تھی جب ہاردک کے تین کلیدی ساتھیوں کو اس نے خرید لیا۔ ہاردک کے مطابق ان لوگوں کو تین تین کروڑ روپے میں خریدا گیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بی جے پی نے ان کے لوگوں کو توڑنے کے لیے کئی سو کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اسی درمیان بی جے پی کو نریش پٹیل کے علاوہ نکھل سوانی نے بھی سربازار برہنہ کر دیا۔ نکھل سوانی ابھی تین ہفتے قبل ہی بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ بی جے پی نے خرید فروخت کا بازار گرم کر دیا ہے اور اس نے تمام اصولوں کو طاق پر رکھ دیا ہے تو انھوں نے بی جے پی کا دامن چھوڑ دیا۔ ادھر نریش پٹیل کے الزام کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ وزیر قانون روی شنکر نے ایک پریس بریفنگ میں اس کے لیے کانگریس کو مورد الزام ٹھہرایا۔ انھوں نے سوال کیا کہ نریش پٹیل نے دس لاکھ روپے دکھائے ہیں باقی نوے لاکھ کہاں ہیں۔ روی شنکر کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ وہ نوے لاکھ تو ابھی آئے ہی کہاں تھے۔ یہ دس لاکھ تو ایڈوانس میں دیے گئے تھے۔ باقی نوے لاکھ تو بی جے پی جوائن کرنے کے بعد دیے جاتے۔ روی شنکر جی اگر الزام لگانا ہی تھا تو کوئی ٹھوس بات کہی ہوتی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی لیڈروں پر بد حواسی طاری ہے اور وہ کوئی ڈھنگ کی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ صورت حال حکمراں جماعت کے لیے کسی بد شگونی سے کم نہیں۔ لیکن اس نے تو خود ہی اپنی قبر تیار کی ہے۔ نوٹ بندی ہو یا جی ایس ٹی، سب نے عوام اور غریب عوام کی کمر توڑی ہے۔ امیروں کو مالامال اور غریبوں کو کنگال کیا ہے۔ اب عوام کی باری ہے۔ وہ ’’نوٹ بندی‘‘ کے جواب میں ’’ووٹ بندی‘‘ کا ہتھیار چلانے والے ہیں۔ گویا وہ گجرات جسے بی جے پی اور آر ایس ایس نے بہت جاں فشانی کے ساتھ ہندوتو اکی تجربہ گاہ بنایا تھا ،لگتا ہے کہ اب بی جے پی کی قبرگاہ میں تبدیل ہوجائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔