انا تحریک: کانگریس کو بدنام کرنے کی سیاسی سازش

بس یوں لگتا تھا گویا ایک انقلاب ہے جو بپا ہونے کو تیار ہے اور انقلاب بھی کیسا، ایسا کہ جو عوام کی زندگیاں بدل دے گا اور ہندوستانی سیاسی و سماجی زندگی سے بدعنوانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

اللہ کی پناہ، کیا سماں تھا وہ! ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیاں دہلی کے جنتر منتر اور پھر رام لیلا میدان میں اکٹھا، انا ہزارے ’تخت طاؤس‘ پر گاؤ تکیہ لگائے فراش، کبھی کیجریوال تو کبھی کرن بیدی ہندوستان کا پرچم لہراتے ہوئے غصے میں منموہن حکومت کے خلاف تقریروں میں آگ اگلتے ہوئے۔ بس یوں لگتا تھا گویا ایک انقلاب ہے جو بپا ہونے کو تیار ہے اور انقلاب بھی کیسا، ایسا کہ جو عوام کی زندگیاں بدل دے گا اور ہندوستانی سیاسی و سماجی زندگی سے بدعنوانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ اور یہ سب کچھ کس نام پر! بس ایک ہی نام تھا جو اس وقت دہلی اور میڈیا کے ذریعہ پورے ہندوستان میں گونج رہا تھا اور وہ تھا ’ٹو جی اسکیم‘۔

یہ ٹو جی اسکیم کیا تھا! یاد دہانی کے لیے بتانا ضروری ہے کہ اس وقت منموہن سنگھ کے زیر سایہ چلنے والی یو پی اے-2 حکومت نے ٹیلی کام میں موبائل فون کے لیے اسپیکٹرم کی نیلامی کی تھی۔ اس وقت ڈی ایم کے لیڈر اے راجہ ٹیلی کام وزیر تھے۔ یکایک دہلی میں شور اٹھا کہ منموہن حکومت نے اس معاملے میں ہزاروں کروڑ کا گھوٹالہ کیا ہے۔ بس کیا تھا، دیکھتے دیکھتے انا ہزارے ساز و سامان کے ساتھ دہلی جنتر منتر پر دھرنے پر بیٹھ گئے۔ ہزاروں لوگ ملک سے کرپشن دور کرنے کی جدوجہد میں اکٹھا ہو گئے۔ لوک پال بل پاس کیا جائے، اس مطالبہ کو لے کر پارلیمنٹ کیا پوری منموہن سنگھ حکومت کو ٹھپ کر دیا گیا اور ہمیشہ کی طرح شور مچ گیا کہ کانگریس کرپٹ ہے۔ کانگریس پارٹی کی ملک بھر میں ناک کٹ گئی اور پھر سنہ 2014 میں جب چناؤ ہوئے تو بدعنوانی ختم کرنے کے نام پر نریندر مودی ایک لہر کے ساتھ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
انا ہزارے کے ساتھ کرن بیدی

اس پوری ہنگامہ آرائی کا نتیجہ کیا نکلا! ابھی دو روز قبل اس معاملے میں سی بی آئی عدالت کے جج نے جو فیصلہ دیا وہ پیش خدمت ہے: ’’مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں رتّی بھر ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ استغاثہ کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔‘‘

یعنی انّا ہزارے تحریک کے بعد ملک کی حکومت بدل گئی۔ کانگریس ساری دنیا میں بدنام اور بدعنوان ہو گئی۔ اور ملک کے وزیر اعظم مودی اور دہلی کے وزیر اعظم کیجریوال ہو گئے۔ اور کس نعرے پر، ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کے نام پر۔ اور وہ بھی ایک ایسے معاملے میں جس میں عدالت نے ہر کسی کو باعزت بری کر دیا۔

اب پتہ چلا کہ انا موومنٹ ایک نوٹنکی اور ایک سیاسی فراڈ تھا جس کا مقصد کانگریس کو بدنام ہی کرنا نہیں بلکہ بدعنوانی کے الزام میں کانگریس کی ساکھ کو ایسا نقصان پہنچانا تھا کہ وہ چناؤ ہار جائے اور اس کی جگہ بی جے پی اقتدار میں آ جائے۔ راقم الحروف یہ بات اس وقت بھی لکھ رہا تھا اور یہ بات ہوا میں نہیں کہی جا رہی تھی۔ انا کی ہڑتال ختم ہونے کے بعد خود آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’’دہلی کے جنتر منتر اور رام لیلا میدان پر بھیڑ سنگھ نے اکٹھا کی تھی۔‘‘ اور اسی طرح اس وقت وشو ہندو پریشد کے عالمی صدر اشوک سنگھل نے بھی یہ کہا تھا کہ ’’دہلی کے رام لیلا میدان میں مفت ہزاروں لوگوں کو روز کھانا کھلانے کے لیے بھنڈارا (لنگر) وشو ہندو پریشد نے لگایا تھا۔‘‘

یعنی انا مومنٹ ایک آر ایس ایس چال تھی جس کا مقصد ٹو جی گھوٹالہ کا شور مچا کر بدعنوانی ختم کرنے کی عوام میں امید جگا کر بی جے پی اور نریندر مودی کو اقتدار تک پہنچانا تھا۔ اور سنگھ نے ایسا پہلی بار نہیں کیا تھا۔ دراصل انا موومنٹ نے قبل اس ملک میں دو اور بڑی کرپشن مخالف مہم چلائی تھیں۔ سنہ 1980 کی دہائی میں بوفورس گن کے خلاف وی پی سنگھ کی قیادت میں راجیو گاندھی کے خلاف چلنے والی تحریک اور سنہ 1970 کی دہائی میں اندرا گاندھی کے خلاف جے پی موومنٹ جس میں بہار اور گجرات کے کانگریس وزرائے اعلیٰ کے خلاف بدعنوانی کا نام لے کر تحریکیں چلائی گئی تھیں۔

میں نے خود ان دونوں تحریکوں میں جنون کی حد تک حصہ لیا تھا۔ ارے وہ وی پی سنگھ کا ہندوستان بھر میں گھوم گھوم کر بوفورس گن کے خلاف شور اور میرا ان کے ساتھ سارے ہندوستان میں گھوم گھوم کر اس معاملے کو بطور صحافی رپورٹ کرنا مجھے آج بھی یاد ہے۔ جیسے انا موومنٹ کے دور میں نوجوان بدعنوانی کے خلاف کھول رہا تھا ویسے ہی سنہ 1987-89 کے دور میں بھی نوجوان بوفورس گن معاملے میں سڑکوں پر تھا، اور بالکل اسی طرح جب 1989 کا پارلیمانی چناؤ ہوا تو کانگریس اقتدار سے باہر تھی۔ وی پی سنگھ وزیر اعظم تھے اور وہ بی جے پی جو سنہ 1985 میں لوک سبھا میں محض چار ممبران کی پارٹی تھی وہی بی جے پی اب 70-80 ممبران کی پارٹی ہو چکی تھی۔ اور وی پی سنگھ حکومت پارلیمنٹ میں بی جے پی حمایت کی محتاج تھی۔ اور آخر میں جب بی جے پی وی پی سنگھ سے منڈل معاملے پر ناراض ہوئی تو رام مندر کے نام پر سنگھ نے حکومت کو اقتدار سے باہر کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

بوفورس اسکیم کے نام پر بھی وہی ہوا جو 2 جی میں ہوا تھا۔ کانگریس اقتدار سے باہر ہوئی۔ وہ بی جے پی جو ہندوستانی سیاست کی اچھوت تھی وہ ملک کی سیاست میں کانگریس کے بعد دوسری سب سے بڑی طاقت بن گئی۔ یعنی ٹو جی کی طرح بوفورس میں بھی ماری کانگریس گئی اور لڈو کھائے بی جے پی نے جس نے رام مندر کے نام پر ملک کی سیاست میں افضلیت حاصل کر لی۔

اسی طرح سنہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بعد اندرا گاندھی ملک کی سب سے مقبول ترین لیڈر تھیں۔ سنہ 1972 کے چناؤ کے بعد انھوں نے عبدالغفور صاحب کو بہار کا وزیر اعلیٰ منتخب کیا۔ سنہ 1973 اور سنہ 1974 آتے آتے یکایک عبدالغفور اور گجرات کے کانگریس وزیر اعلیٰ چمن بھائی پٹیل کے خلاف بدعنوانی کا شور مچ گیا۔ بس پہلے بہار اور گجرات مفلوج ہوا۔ پھر یکایک بدعنوانی ختم کرنے انّا ہزارے کی طرح جے پرکاش نرائن اس تحریک کے روح رواں ہو گئے اور دیکھتے دیکھتے بی جے پی تحریک ’اندرا ہٹاؤ‘ تحریک بن گئی۔ اندرا گاندھی سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ایمرجنسی لگا دی۔ بس کیا تھا، سنہ 1977 کے چناؤ میں کانگریس اقتدار سے باہر اور جن سنگھ (جو اس وقت کی بی جے پی تھی) جنتا پارٹی میں شامل ہو کر ملک کے اقتدار کا حصہ بن گئی۔

لب و لباب یہ کہ بدعنوانی مٹاؤ تحریک ایک سیاسی سازش کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتی۔ دراصل سنہ 1970 کی دہائی سے اب تک ایسی ہر تحریک سنگھ کی کانگریس کو بدنام کر بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے کی ایک سازش ہوتی ہے۔ وہ بوفورس ہو یا ٹو جی اسکیم یہ محض لیبل ہوتے ہیں جس کی آڑ میں حکومت وقت کے خلاف ایک فضا اور ہوا بنائی جاتی ہے۔ اس کا مقصد بس یہی ہے کہ آنے والے چناؤ میں کانگریس کو ہٹا کر بی جے پی کو اقتدار میں پہنچا کر ملک میں ہندوتوا ایجنڈا نافذ کیا جا سکے۔

ٹو جی معاملے میں سی بی آئی عدالت کے فیصلے کے بعد اب یہ واضح ہے کہ انّا تحریک ایک سیاسی سازش تھی جس کی پشت پناہی سنگھ کر رہی تھی اور اس کا بنیادی مقصد کانگریس کو ہٹا کر نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانا تھا تاکہ ملک کو ہندو راشٹر بنایا جا سکے۔ اب سمجھے جے پی موومنٹ سے لے کر انّا موومنٹ تک سب ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے تھے اور وہ تھیلی ہمیشہ آر ایس ایس کی مٹھی میں ہوتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔