’اَنّ داتا‘ پچھلے دروازے پر نگاہ رکھیں!... یوگیندر یادو

ایگریکلچر مارکیٹنگ پالیسی سے یہ اندیشہ بڑھ رہا ہے کہ ان 3 زرعی قوانین کو پھر سے لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جنھیں واپس لے لیا گیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>کسان تحریک / آئی اے این ایس</p></div>

کسان تحریک / آئی اے این ایس

user

یوگیندر یادو

ایک دن کے لیے ہی سہی، کم از کم ایک بار تو ایسا لگا کہ کسان کے سوال پر سڑک اور پارلیمنٹ ایک ہی آواز میں بول رہے ہیں۔ ادھر سڑک پر موجود کسان قانونی ایم ایس پی کا مطالبہ کر رہے ہیں، اُدھر زرعی امور کی اسٹینڈنگ پارلیمانی کمیٹی بھی پہلی بار ایم ایس پی کو قانونی درجہ دینے کی سفارش کر رہی ہے۔ لیکن اس جگل بندی کے باوجود حکومت کی بے رخی برقرار ہے۔ اس کا جدید دستاویز پھر اس پرانی راگ کو دہرا رہا ہے جسے کسانوں نے 3 سیاہ قوانین کی واپسی کےس اتھ ہی دفن کر دیا تھا۔ مانو سرکاری پالیسی نہ ہوئی، کتے کی دُم ہے جو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ سڑک پر کھڑا کسان کبھی پارلیمنٹ کو تو کبھی حکومت کو دیکھنے پر مجبور ہے۔

کسان تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کھنوری بارڈر پر سنیوکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) کے بینر تلے کسان پھر دھرنا لگا کر بیٹھے ہیں۔ مطالبات وہی ہیں جو دہلی میں محاذ آرائی کے وقت ادھورے بچے تھے، یعنی ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی، کسانوں کے قرض کی معافی اور کسان تحریک ختم کرتے وقت مرکزی حکومت کے ذریعہ کیے گئے وعدوں کی تکمیل۔ لیکن حکومت کسی بھی قیمت پر کسانوں کو دہلی نہیں آنے دینا چاہتی۔ یہ مضمون لکھے جانے کے وقت کسان لیڈر سردار جگجیت سنگھ دلیوال کی تامرگ بھوک ہڑتال کا 23واں دن تھا۔ لیکن مرکزی حکومت کا کوئی بھی نمائندہ ان سے بات کرنے بھی نہیں پہنچا۔ حالانکہ اصل سنیوکت کسان مورچہ کی بیشتر کسان تنظیمیں کھنوری دھرنے میں شامل نہیں ہوئی ہیں، لیکن انھوں نے بھی اس دھرنے کی حمایت میں 16 دسمبر کو ملک بھر میں ٹریکٹر مارچ نکالا تھا۔ انہی مطالبات کو لے کر سنیوکت کسان مورچہ نے بھی نومبر مین حکومت کو 3 ماہ کا الٹی میٹم دیا ہے۔ اگر کسان تحریک کی یہ دونوں دھارا جڑ جائیں تو پچھلی بار سے بھی بڑی کسان تحریک کھڑی ہو سکتی ہے۔


جدوجہد کر رہے کسانوں کو ایک حیرت انگیز حمایت پارلیمنٹ کے موجودہ اجلاس سے ملی جب 17 دسمبر کو پارلیمنٹ کی زرعی، مویشی پروری و فوڈ پروسیسنگ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اپنی پہلی رپورٹ میں کسان تحریک کے کئی مطالبات کو اپنی سفارشات میں شامل کیا۔ اس کمیٹی کے سربراہ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ سردار چرنجیت سنگھ چنّی ہیں، لیکن اس کمیٹی میں سبھی پارٹیوں کے اراکین شامل ہیں اور ان میں برسراقتدار طبقہ کی اکثریت ہے۔ اتفاق رائے سے اس کثیر پارٹی کمیٹی نے سفارشات کی ہیں کہ ایم ایس پی کو قانونی درجہ دیا جانا چاہیے اور وزارت کو اس سلسلے میں ایک خاکہ تیار کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ کمیٹی نے کسانوں پر بڑھتے قرض کے بوجھ کو دیکھتے ہوئے کسانوں کو قرض سے پاک کرنے کا منصوبہ بنانے اور ’کسان سمّان ندھی‘ کو سالانہ 6000 روپے سے بڑھا کر 12000 روپے کرنے کی سفارش کی ہے۔ پہلی بار زرعی اشیاء کے لیے بین الاقوامی تجارتی پالیسی بناتے وقت کسانوں کی شراکت داری کے مطالبہ کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ ویسے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات حکومت کے لیے پابند نہیں ہیں، پھر بھی یہ امید بندھتی ہے کہ کسان تحریک کی آواز اب سڑک سے پارلیمنٹ کی طرف رخ لے رہی ہے۔

اس درمیان حکومت کا رخ جوں کا توں ہے۔ حال ہی میں حکومت ہند کی وزارت زراعت نے 25 نومبر کو ایک 10 سالہ پالیسی نیشنل پالیسی فریم ورک فار ایگریکلچرل مارکیٹنگ کا مسودہ جاری کیا۔ کسانوں سے متعلق اس دستاویز کو صرف انگریزی میں جاری کیا گیا اور ملک بھر کے کسانوں سے 15 دن میں رد عمل مانگا گیا۔ یہ دستاویز آج بھی اسی ذہنیت کا شکار ہے جس نے 3 کسان مخالف قوانین بنائے تھے۔ حالانکہ زرعی بازار ریاستی حکومتوں کا حلقہ اختیار ہے، پھر بھی مرکزی حکومت نے بغیر ریاستی حکومتوں کی صلاح لیے یہ دستاویز بنایا۔ یہی نہیں، یہ دستاویز کہتا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو مستقبل میں اپنی ایگریکلچر مارکیٹنگ پالیسی اس قومی دستاویز سے جوڑ کر بنانی پڑے گی۔ جب کسان بازار میں جاتے ہیں تو ان کی سب سے بڑی تکلیف ہے کہ انھیں اپنی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔ اس لیے ایم ایس پی یعنی کم از کم قیمت کا انتظام ہوا جسے قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کسان کر رہے ہیں۔ لیکن ایگریکلچر مارکیٹ پر مرکوز اس دستاویز میں ایم ایس پی کا ذکر تک نہیں ہے۔ اس کے بدلے فصل انشورنس کے طرز پر فصل کی قیمت کا انشورنس کرنے کے منصوبہ کی تجویز ہے۔


اس دستاویز سے یہ صاف ہے کہ حکومت کسانوں کو بازار کے بھروسے چھوڑ دینا چاہتی ہے۔ اس بازار کو پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کی تیاری بدستور جاری ہے۔ بھلے ہی حکومت کو اے پی ایم سی کے برعکس پرائیویٹ منڈیاں کھڑی کرنے والا قانون واپس لینا پڑا تھا، لیکن اب اس پالیسی دستاویز کے سہارے حکومت واپس اسی تجویز کو پچھلے دروازے سے لینا چاہتی ہے۔ اس دستاویز میں جن زرعی اصلاحات کی تجویز ہے، اس میں پرائیویٹ منڈی بنانے کی اجازت دینا ایکسپورٹرس و ہول سیل کاروباریوں کو سیدھے کھیت سے خریدی کا انتظام اور گودام کو مارکیٹ یارڈ مان لینے جیسا التزام ہے جو سرکاری منڈی کے نظام کو منہدم کرنے کے ارادہ سے لائے گئے قوانین کو دوبارہ کسانوں پر لادنے کی سازش ہے۔ یہی نہیں، یہ دستاویز کانٹریکٹ فارمنگ کے اس نظام کو بھی واپس لانے کی سفارش کرتا ہے جس کا قانون حکومت نے کسانوں کے دباؤ میں واپس لے لیا تھا۔ ظاہر ہے، ابھی تک ملک کی تمام کسان تنظیموں تک حکومت کی اس نئی پالیسی کی خبر پہنچی نہیں ہے۔ لیکن ’آشا-کسان سوراج سنگٹھن‘ کے کنوینر کویتا کروگنٹی اور راجندر چودھری نے تحریری اعتراض درج کرتے ہوئے حکومت سے اس مسودے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سنیوکت کسان مورچہ نے بھی اس دستاویز کی کاپیاں جلانے کا اعلان کیا ہے۔ مظاہرین جانتے ہیں کہ دہلی حکومت اونچا سنتی ہے۔ لگتا ہے اس حکومت کو اپنے مطالبات سنانے کے لیے کسانوں کی سبھی تنظیموں کو متحد ہو کر دوبارہ سڑک پر اترنے کا وقت آ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔