’دراندازوں‘ سے متعلق امت شاہ کے دعویٰ کی الیکشن کمیشن کی ’بہار ووٹر لسٹ‘ نے ہی نکال دی ہوا... اے جے پربل

الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار میں کرائی گئی ووٹرس کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) میں سامنے آیا ہے کہ ریاست میں صرف 390 غیر ملکی ملے ہیں، جن میں سے محض 76 مسلم ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>امت شاہ، تصویر یو این آئی</p></div>
i
user

اے جے پربل

ہفتہ کے روز مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے دفتر نے اپنی ایک پوسٹ میں ترمیم کی، جس میں یہ غلط دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی اب 24.6 فیصد ہو گئی ہے۔ بی جے پی نے وضاحت پیش کی کہ یہ ’ٹائپنگ کی غلطی‘ تھی، لیکن پھر بھی یہ دعویٰ برقرار رکھا کہ 2001 سے 2011 کے درمیان مسلمانوں کی آبادی میں 24.6 فیصد اضافہ دراندازوں کی وجہ سے ہوا۔ لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار میں کرائی گئی ووٹرس کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) میں سامنے آیا ہے کہ ریاست میں صرف 390 غیر ملکی ملے ہیں، جن میں سے محض 76 مسلم ہیں۔

ہندوستانی الیکشن کمیشن نے بہار کی ووٹر لسٹ کے اصلاح سے متعلق مہم کے بعد بتایا کہ 25 جون سے 25 جولائی 2025 کے درمیان خصوصی گہری نظرثانی کے دوران 65 لاکھ ووٹرس کو نااہل قرار دے کر فہرست سے ہٹا دیا گیا۔ ان میں 22.34 لاکھ ووٹرس انتقال کر چکے تھے، 6.85 لاکھ کے نام میں دہراؤ تھا، اور 36.44 لاکھ نے مستقل طور پر رہائش بدل لی تھی۔


مجموعی تعداد 65.63 لاکھ رہی، اور حیرت انگیز طور پر ان میں کوئی بھی غیر ملکی نہیں پایا گیا۔ یکم اگست کو جب 7.24 کروڑ ووٹرس کی ڈرافٹ لسٹ جاری کی گئی تو اس کے بعد عوام سے اعتراضات اور نام شامل یا حذف کرنے کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں۔ یہ عمل تقریباً 2 ماہ جاری رہا، جس کے بعد 30 ستمبر کو ووٹرس کی حتمی لسٹ جاری کی گئی۔ اس بار الیکشن کمیشن نے کہا کہ 3.66 لاکھ مزید نام حذف کیے گئے، یوں مجموعی طور پر تقریباً 69 لاکھ ووٹرس کو فہرست سے نکال دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ڈرافٹ لسٹ پر تقریباً 3.87 لاکھ اعتراضات موصول ہوئے، جن میں سے 1087 اعتراضات ایسے ووٹرس سے متعلق تھے جنہیں ’غیر ملکی‘ بتایا گیا۔ الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے بعد 390 اعتراضات درست پائے، اور اعتراف کیا کہ حتمی لسٹ میں واقعی 390 غیر ملکی پائے گئے تھے۔

سماجی کارکن اور سابق انتخابی تجزیہ کار یوگیندر یادو نے ’دی وائر‘ سے گفتگو میں کہا کہ ان 390 ناموں میں صرف 76 مسلم تھے، باقی سب ہندو تھے، جو غالباً نیپال سے آئے تھے۔ حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ ان 390 میں سے صرف 10 لوگ بہار کے سیمانچل (پورنیہ، کٹیہار، کشن گنج اور ارریہ) سے تھے، جن میں سے 5 مسلم تھے اور ان میں سے 2 فوت ہو چکے تھے۔ یعنی اگر الیکشن کمیشن کی فہرست درست مانی جائے، تو بہار میں صرف 76 مسلمان ’درانداز‘ پائے گئے۔


آخر الیکشن کمیشن کیا چھپا رہا ہے؟ بار بار مطالبہ کے باوجود اس نے ابھی تک یہ بہار میں پائے گئے ’غیر ملکیوں‘ یا ’دراندازوں‘ کی تعداد نہیں بتائی ہے۔ یوگیندر یادو نے سپریم کورٹ کی جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جئے مالیہ باغچی سے اپیل کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو تفصیلی اعداد و شمار جاری کرنے کی ہدایت دیں۔ 5 اکتوبر کو پٹنہ میں پریس کانفرنس کے دوران جب یہ سوال کیا گیا تو چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے بس اتنا کہا کہ ’’بہار میں ہٹائے گئے ووٹرس میں کچھ غیر ملکی بھی شامل ہیں۔‘‘

بنگلہ دیش اور میانمار سے دراندازوں کے ملک میں داخل ہونے کے بارے میں جو کہانی تیار کی جا رہی ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب کے دوران بی جے پی نے دراندازوں کا مسئلہ اٹھایا تھا، اور اب بہار، مغربی بنگال و آسام میں بھی (جہاں انتخابات ہونے والے ہیں) اسے خوب اچھالا جا رہا ہے۔ حالانکہ اگر بہار میں ایس آئی آر ایک اشارہ ہے، تو یہ معاملہ بے بنیاد نظر آتا ہے۔ یا پھر الیکشن کمیشن کوئی چال چل رہا ہے؟ کیونکہ اس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ حتمی ووٹر لسٹ میں اب بھی کچھ مردہ یا دہراؤ والے ووٹرس کیوں موجود ہیں۔


نہ صرف وزیرِ داخلہ امت شاہ بلکہ وزیراعظم نریندر مودی بھی بارہا ’دراندازی کے خطرے‘ کی بات کرتے رہے ہیں۔ 15 اگست 2025 کو یومِ آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب میں وزیر اعظم مودی نے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ درانداز ہمارے نوجوانوں کی روزی چھین رہے ہیں۔ یہ درانداز ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ درانداز بھولے بھالے قبائلیوں کو بے وقوف بنا کر ان کی جنگلاتی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں۔ یہ ملک اسے برداشت نہیں کرے گا۔‘‘ انہوں نے اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ’آبادیاتی مشن‘ کا اعلان بھی کیا، لیکن اس بارے میں مزید کوئی جانکاری نہیں دی گئی۔ تو کیا وزیر اعظم کا اشارہ الیکشن کمیشن اور وزارت داخلہ کی کارروائی کی طرف تھا؟

اس دوران امت شاہ کے دفتر کے ذریعہ حذف شدہ ٹوئٹ سے منسلک تنازعہ کو بھی اسی ضمن میں دیکھنا چاہیے۔ 2001 کی مردم شماری میں ہندوؤں کی تعداد 82.8 کروڑ اور مسلمانوں کی تعداد 13.8 کروڑ بتائی گئی تھی۔ 2011 میں اگلی مردم شماری میں ہندوؤں کی آبادی 96.6 کروڑ اور مسلمانوں کی آبادی 17.2 کروڑ بتائی گئی۔ اس طرح 2001 سے 2011 کی مدت میں ہندوؤں کی تعداد میں 13.8 کروڑ اور مسلمانوں کی تعداد میں 3.4 کروڑ کا اضافہ ہوا۔


بی جے پی آئی ٹی سیل کے چیف امت مالویہ نے ہفتہ کے روز ’امت شاہ کے دفتر‘ کے اس دعویٰ کو دہرایا کہ ’’2001 سے 2011 کے درمیان مسلمانوں کی آبادی کی شرحِ نمو 24.6 فیصد رہی (نہ کہ مجموعی آبادی، جیسا کہ پہلے غلطی سے پوسٹ کیا گیا تھا)۔‘‘ حالانکہ 13.8 کروڑ سے 17.2 کروڑ تک اضافی فیصد کو شمار کرنے میں وہ درست ہیں، لیکن وہ یہ بتانے سے پرہیز کر گئے کہ اس مدت کار میں ہندوؤں کی آبادی کی شرح نمو بھی 15 فیصد سے زیادہ رہی۔ وہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں کہ 1971 کے بعد سے مسلم آبادی کی شرح نمو میں مستقل گراوٹ آئی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بعد میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ’’1951 سے 2011 تک کی مردم شماریوں میں مختلف مذاہب کے درمیان شرح نمو میں مستقل عدم مساوات کے پیچھے اہم وجہ دراندازی ہے۔‘‘ اس دعویٰ کی حمایت میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ میانمار سے آئے پناہ گزینوں کو اقوام متحدہ کے ذریعہ بسایا گیا ہے اور انھیں پناہ گزیں کا درجہ اور کارڈ فراہم کیا گیا ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش سے ملحق سرحد پر، جس کا بیشتر حصہ کنٹیلے تاروں کی باڑ سے گھرا ہوا ہے، بی ایس ایف تعینات ہے، پھر بھی ہر سال کچھ ہزار لوگ بنگلہ دیش سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے بی ایس ایف کے ذریعہ ’پکڑ‘ لیے جاتے ہیں۔ اگر لاکھوں کی تعداد میں درانداز واقعی بہار یا دیگر مقامات پر کام کر رہے ہیں، تو وزارت داخلہ کو جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔