راجستھان انتخاب: سیاسی ہلچل کے درمیان بی جے پی نے کیا ’سیلف گول‘

راجستھان سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے، راجستھان میں بی جے پی کی حالت دگر گوں ہے جہاں سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سے ہی بی جے پی لیڈران بچتے نظر آ رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس

user

شرد گپتا

وزیر اعظم نریندر مودی 2 اکتوبر کو راجستھان میں ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ اس دوران انھوں نے اپنے ہی پالے میں دو گول کر لیے۔ غیر معمولی طریقے سے انھوں نے کانگریس کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کی دی گئی گارنٹیوں اور منصوبوں کی تعریف کی اور اعلان کیا کہ اگلی بی جے پی حکومت انھیں برقرار رکھے گی۔ اس تعلق سے بی جے پی لیڈران کوئی وضاحت پا بھی نہیں سکے تھے کہ وزیر اعظم نے دوسرا سیلف گول بھی کر ڈالا۔ انھوں نے کہا کہ ان انتخابات میں وہ کسی چہرے کی تلاش نہ کریں۔ ووٹرس کو کمل والا بٹن دبانے پر دھیان دینا چاہیے۔ ویسے بی جے پی پر نگاہ رکھنے والے لوگوں نے اسے اس طرح سمجھا اور بتایا کہ پارٹی نے سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کو وزیر اعلیٰ عہدہ کے امیدوار کے طور پر پروجیکٹ کرنے کے امکان کو ختم کر دیا ہے۔ پارٹی اسمبلی انتخاب میں مجموعی قیادت کے استعمال کو دہرا رہی ہے۔

اکتوبر کے آخر اور ستمبر کے شروعاتی دنوں میں دہلی میں راجستھان بی جے پی کو لے کر کافی سرگرمیاں رہیں۔ راجے کو راجدھانی بلایا گیا اور ان کی مرکزی وزیر خارجہ امت شاہ سمیت کئی سینئر لیڈران سے ملاقات ہوئی۔ تب اس امکان کو پھر زور ملا کہ یا تو انھیں وزیر اعلیٰ عہدہ کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جائے گا یا انھیں اپنے حامیوں کو پارٹی امیدواروں کے بارے میں فیصلے کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن خبریں آئیں کہ شاہ کے ساتھ ان کی ملاقات کشیدگی سے پُر رہی۔ شاہ نے انھیں اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنے اور وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے خلاف انتخاب لڑنے کو کہا۔


بی جے پی کے داخلی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ دیر شب 40 منٹ تک چلی اس میٹنگ سے راجے کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی کہ پارٹی قیادت کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے۔ پارٹی پروگراموں میں شریک نہ ہونے اور ان میں سرگرم شراکت داری نہ دکھانے کو لے کر بھی ان سے اپنا رخ صاف کرنے کو کہا گیا۔ وہ 2003 سے جھالراپاٹن علاقہ کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ انھیں اس کی جگہ گہلوت کے انتخابی حلقہ سردارپورہ سے لڑنے کو کہا گیا۔ بات بہت صاف ہے، گہلوت کو ان کے انتخابی حلقہ میں ہرانا کسی کے لیے بھی مشکل ہی ہے۔ وسندھرا اور گہلوت بھلے ہی سیاسی حریف ہوں، بی جے پی لیڈران مانتے ہیں کہ راجے نے گہلوت کے ساتھ ذاتی رشتے اچھے رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں کی ایک ساتھ تصویر بھی حال کے دنوں میں وائرل ہوئی تھی۔

ویسے بی جے پی کو لے کر نرم رخ رکھنے والے لوگ بھی اسے پارٹی قیادت کی غلطی مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وسندھرا کے بغیر انتخابات میں اترنا پارٹی کے لیے زیادہ مشکل بھرا ہوگا۔ مانا جاتا ہے کہ پارٹی نے جس طرح مدھیہ پردیش میں مرکزی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ کو میدان میں اتارا ہے، وہ راجستھان میں بھی ایسا ہی کرے گی۔ بی جے پی کے لوگ مانتے ہیں کہ راجے کو ریاست میں پارٹی کارکنان کے ایک بڑے طبقہ کی جس قسم کی حمایت حاسل ہے، ویسا کسی دیگر لیڈر کا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معنی میں راجے کے مقابلے میں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا، مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت یا ارجن رام میگھوال کہیں نہیں ٹکتے۔


وہ یہ بھی دھیان دلاتے ہیں کہ بھلے ہی نریندر مودی اور امت شاہ کو یقین ہو کہ 200 رکنی اسمبلی میں وسندھرا کے بغیر بھی پارٹی 110 سیٹیں جیت سکتی ہے، لیکن ٹائمز ناؤ کے حال میں کیے گئے سروے میں کانگریس کو 104 اور بی جے پی کو 90 سیٹیں  ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ زمینی حالت تو واقعی میں اور بھی خراب ہے۔ وزیر اعظم نے ابھی حال میں جس طرح سیلف گول کیے ہیں، واقعی میں اس سے تو گہلوت کی مسکان بڑھ ہی گئی ہوگی۔ آخر بی جے پی کے سب سے بڑے چہرے وزیر اعظم تک کو ان کی تعریف کرنی پڑی ہے۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ یہ ’مودی کی گارنٹی‘ ہے کہ گہلوت کے ذریعہ شروع کیے گئے منصوبے جاری رہیں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لوگ مودی کی باتوں کو ایسے میں کتنی سنجیدگی سے لیں گے جو حال تک ان منصوبوں کو ’ریوڑی‘ بتاتے رہے ہیں۔ ایسے مین مودی کی نام نہاد پرانی گارنٹیوں کے بارے میں بھی تو سوال اٹھیں گے۔ مثلاً بلیک منی پر لگام، کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنا، یا پھر 2 کروڑ نوجوانوں کو روزگار۔


راجستھان میں عام طور پر یہ رائے ہے کہ گہلوت نے اچھا کام کیا ہے۔ اور ’جادوگر‘ مانے جانے والے گہلوت نے تو ’چالاک‘ کہے جانے والے مودی کو ہی پھنسا لیا۔ گہلوت نے چیلنج پیش کیا تھا کہ مودی کہیں کہ اگر بی جے پی جیتی تو وہ ان کے شروع کیے گئے منصوبوں کو جاری رکھنے کی گارنٹی دے رہے ہیں۔ مودی نے اسی لیے یہ گارنٹی تو دی لیکن اس طرح انھوں نے گہلوت کے منصوبوں کی تعریف ہی کر دی۔

دونوں ہی پارٹیوں میں امیدواروں کا انتخاب مشکل بھرا ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی امیدواروں سے ہی طے ہوگا کہ کیا وسندھرا کو کنارے کر دیا گیا ہے یا وہ غیر جانبدار رہیں گی۔ عوام سے رابطہ بنائے رکھنے کے لیے وسندھرا اپنی تین تعریف دیتی ہیں کہ وہ جاٹوں کی بہو، راجپوتوں کی بیٹی اور گوجروں کی سمدھن ہیں۔


ابھی حال ہی میں کانگریس اسٹیئرنگ کمیٹی کی اودے پور میں میٹنگ ہوئی تھی۔ اس کی قیادت رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی کر رہے تھے۔ اتفاق سے وہ جب وہاں ایئرپورٹ پہنچے تو وی آئی پی لانج میں ان کی ملاقات وسندھرا سے ہو گئی۔ اس کی تصویر وائرل ہو گئی۔ حالانکہ دونوں ہی فریقین نے عوامی طور پر اسے اہمیت نہیں دی۔

پارٹی قیادت کو اپنی اہمیت بتانے کے خیال سے ہی وسندھرا نے جئے پور سے تقریباً 200 کلومیٹر دور چرو ضلع کے سالاسار دھام میں اپنی 70ویں سالگرہ پر ریلی کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں 73 بی جے پی اراکین اسمبلی میں سے 57، راجستھان سے 25 لوک سبھا اراکین میں سے 14، راجیہ سبھا کے ایک رکن اور 118 سابق اراکین اسمبلی نے شرکت کی تھی۔ حالانکہ ان کی سالگرہ 8 مارچ ہے، لیکن اس دن ہولی تھی اس لیے انھوں نے اس کا انعقاد پہلے ہی کر لیا تھا۔ کسی بھی مرکزی لیڈر نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔


ویسے وسندھرا کو نریندر مودی ہمیشہ اپنے لیے چیلنج مانتے رہے ہیں۔ اس کے ثبوت بھی ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد مودی نے نہال چند کو وزیر مملکت بنا لیا۔ ان پر عصمت دری کا الزام تو تھا ہی، وہ وسندھرا کے مخالف بھی مانے جاتے رہے ہیں۔ حالانکہ 2018 میں اسمبلی انتخاب سے پہلے وسندھرا کئی دفعہ مودی اور شاہ کے ساتھ اسٹیجوں پر رہیں، لیکن ان کے درمیان تعلقات میں دوری صاف صاف دکھائی دی۔ اسٹیج پر وہ سب ایک ساتھ بیٹھے ضرور، لیکن کئی بار ایک دوسرے کی طرف دیکھا بھی نہیں۔

پارٹی میں ان کے مخالف مانے جانے والے اوم برلا، گجیندر سنگھ شیخاوت، ارجن رام میگھوال، ستیش پونیا، کروڑی لال مینا اور راجیہ وردھن سنگھ راٹھوڑ کو تو مرکزی قیادت نے توجہ دی، پر وسندھرا کو کنارے کیا جاتا رہا۔ انھیں جے پی نڈا کی ٹیم میں قومی نائب صدر بنایا گیا ہے۔ ویسے نڈا سیاسی زندگی میں ان سے بہت جونیئر ہیں۔ وسندھرا زیادہ تر اپنے اسمبلی حلقہ میں ہی سرگرم رہتی ہیں۔ انھوں نے خود یا اپنے کسی حامی کو اسمبلی میں حزب مخالف لیڈر بنائے جانے کی کئی بار کوشش کی، لیکن پہلے تو گلاب سنگھ کٹاریا کو یہ عہدہ دے دیا گیا، اور پھر جب کٹاریا کو آسام کا گورنر بنایا گیا تو اس عہدہ پر راجندر راٹھوڑ آ گئے۔


وسندھرا نے گزشتہ پانچ سال کے دوران 9 ضمنی انتخابات میں کسی میں بھی تشہیر میں حصہ نہیں لیا۔ بی جے پی کو ان میں سے ایک پر ہی جیت ملی۔ ابھی ہو رہی ’پریورتن یاتراؤں‘ میں بھی وہ شرکت نہیں کر رہیں۔ اپنے آبائی علاقوں جھالاواڑ اور کوٹہ میں بھی وہ نظر نہیں آئیں۔ گزشتہ سال ’وسندھرا راجے حامی پلیٹ فارم راجستھان‘ کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس کا مطالبہ تھا کہ وسندھرا کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا امیدوار بنایا جائے۔ اس کے جواب میں ستیش پونیا حامیوں نے اسی طرح کا پلیٹ فارم بنا کر اپنے لیڈر کا نام آگے بڑھا دیا۔

راجستھان میں بی جے پی کے اپنے ہی گھر میں مارا ماری مچی نظر آتی ہے۔ اگر وسندھرا کو کنارے ہی کیا جاتا رہتا ہے یا انھیں گہلوت کے خلاف انتخاب لڑنے کو مجبور کیا جاتا ہے، تو دیکھنے والی بات ہوگی کہ پارٹی کا یا خود ان کا کیا مستقبل رہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔