سنبھل کے مسلمانوں کو چہار سمت سے جنگ کا سامنا، انتظامیہ کی کارروائی میں ’دشمنی‘ کی جھلک!... سید ضیغم مرتضیٰ
سنبھل کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل دینے کی ذمہ داری یوپی حکومت نے انتظامیہ کو سونپ دی ہے، پولیس کارروائی ایسی ہے مانو کوئی دشمنی ہو۔

ہر سال ہولی کے بعد پہلے منگل کو سنبھل کوتوالی کے سامنے ایک ’حفاظتی دستہ‘ لگ جاتا ہے۔ اس دن شہر میں تاریخی سہ روزہ ’نیزہ میلہ‘ لگتا ہے جس کا اختتام حسن پور روڈ پر سید عبدالرحمن کی درگاہ کے پاس ہوتا ہے۔ اس میلے میں ہی سنبھل کے نشیب و فراز کی مکمل تاریخ ہے۔ اس دوران وہ ماضی اپنے ڈرامائی انداز کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اس میلہ میں تازہ اور واحد تبدیلی یہ ہے کہ یوپی حکومت اب اسکرپٹ میں تبدیلی چاہتی ہے۔
سنبھل میں حالات جنگ زدہ غزہ جیسے سنگین بھلے ہی نہ ہوں، پولیس کارروائی اسرائیلی فوجی مہموں سے متاثر ضرور لگ سکتی ہے۔ 24 نومبر 2024 کی گولی باری میں 4 نوجوانوں کی موت کے بعد انتظامیہ نے یہاں کے باشندوں سے کوئی مروت نہیں برتی ہے۔ استحصال کی شکایتیں جس طرح بڑھ رہی ہیں، خبر گرم ہے کہ ریاستی وزیر اعلیٰ سنبھل کا ’قدیم وقار‘ بحال کرنے کے لیے تاریخ کو مٹا کر اسے اکثریتی طبقہ کے لیے ایک اور پاکیزہ شہر میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو نقل مکانی کے لیے خوفزدہ کرنا شاید اس سمت میں پہلا قدم ہو۔
مسجد سروے تنازعہ کے بعد سے ہی پولیس ملزمین کی گرفتاری کے لیے گھر گھر چھاپہ ماری کر رہی ہے۔ قبضہ کے نام پر مکان-دکان منہدم کیے جا رہے ہیں۔ رہائشی منصوبوں کی جانچ ہو رہی ہے۔ لوگوں کے بجلی کنکشن، زمین کی رجسٹری، دکان رجسٹریشن، جی ایس ٹی ریٹرن اور یہاں تک کہ ان کا سیاسی رجحان تک پتہ کیا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر لگتا ہے کہ حکومت مقامی مسلم طبقہ کے ساتھ اپنے سلوک سے سالار مسعود غازی کے ذریعہ گیارہویں صدی میں سنبھل پر کیے گئے حملے کا بدلہ لے رہی ہے۔
سالار مسعود غازی کا قصہ
سالار مسعود غازی سے متعلق کئی قصے ہیں۔ ایک قصہ سنبھل کے اُس وقت کے راجہ جئے سنگھ کے ذریعہ محمود غزنوی کے ایک رشتہ دار کی بیٹی کے اغوا کا ہے۔ بدلہ لینے کے لیے غزنوی نے اپنے 17 سالہ بھتیجے سالار مسعود کو سنبھل بھیجا۔ جنگ ہوئی اور پہلے حملے میں راجپوت فتحیاب ہوئے۔ سنبھل کوتوالی کے سامنے ایک پرچم کا ستون ہر سال اس واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ حالانکہ ایک ہفتہ بعد سالار نے دوسرا حملہ کیا اور کامیاب ہوا۔ سہ روزہ ’نیزہ میلہ‘ اسی لڑائی اور سالار کی جیت کی یاد میں لگتا ہے۔ ان 3 دنوں میں شہر کی نو شادی شدہ دلہنیں سج دھج کر سالار مسعود کی کامیابی کا احترام کرتی ہیں۔
سنبھل تاریخی شہر ہے جہاں خاص طور سے مسلم آبادی رہتی ہے۔ اس میں بڑی تعداد ترک، افغان اور سید کی ہے۔ حالانکہ 24 نومبر کو پولیس کارروائی میں ہلاک یا زخمیوں میں سے بیشتر پسماندہ طبقہ سے تھے۔ یہ بھی حیرانی کی بات ہے، کیونکہ بی جے پی پسماندہ آبادی کے لیے فکر ظاہر کرتی ہے اور انھیں اپنے ووٹ بینک میں بدلنا چاہتی ہے۔ بہرحال، سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ، پولیس کیپٹن اور ڈی ایس پی کا اب تک کا رویہ بتاتا ہے کہ حکومت نے انھیں سالار مسعود غازی کی گیارہویں صدی کی اس فتح کا بدلہ لینے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ وہ برسرعام جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں، لگتا ہے خود کو وہ عوامی خدمت گار نہیں بلکہ مذہبی جنگجو مان بیٹھے ہیں۔
پولیس کارروائی
شاہدہ بیگم کا الزام ہے کہ ان کے کنبہ کے اراکین کو پولیس نے غلط طریقے سے گرفتار کیا اور ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر غیر اخلاقی سلوک کیا۔ وہ پوچھتی ہیں کہ کیا پولیس نے انھیں اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ انھوں نے گزشتہ انتخاب میں سماجوادی پارٹی کی حمایت کی تھی؟ ان کے ساتھ بے رحمی سے مار پیٹ کی گئی اور مذہبی منافرت سے بھری زبان کا استعمال کیا گیا۔
کیا جمہوریت ایسی ہی ہوتی ہے؟ مراد آباد سے سماجوادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ روچی ویرا کا دعویٰ ہے کہ ’’انتظامیہ لوگوں پر مظالم کر رہی ہے اور ہمیں متاثرین سے ملاقات نہیں کرنے دے رہی ہے۔ یہ غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہے۔‘‘
24 نومبر کو سنبھل میں ہوئے تشدد کے بعد پولیس نے 50 سے زائد گرفتاریاں کی ہیں۔ ان کے کنبوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے نہ صرف ان کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، ان لوگوں کو بھی ہدف بنایا جن کا حادثہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایس پی اور ڈی ایس پی کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایس پی-ڈی ایس پی مذہبی تعصب کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ڈی ایس پی تو گدا لے کر شہر میں گھوم رہا ہے، ان کے ساتھ وہ نظر آ رہے ہیں جو ان سب میں شریک ہیں۔ جو بھی بولنے کی ہمت کرتا ہے، اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
پولیس نے مبینہ طور پر پتھراؤ اور ڈیوٹی پر موجود افسران کو نشانہ بنانے کے الزام میں تقریباً 55 لوگوں کو حراست میں لیا۔ سنبھل کے پولیس انسپکٹر کرشن کمار بشنوئی کہتے ہیں کہ ’’اب تک 6 خواتین سمیت 54 مشتبہ گرفتار ہوئے ہیں جنھوں نے اس دن چھتوں سے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا۔ تشدد میں شامل 91 اور مجرم سنبھل پولیس کے رڈرار پر ہیں۔ وہ دوسری ریاستوں میں چھپے ہیں یا آس پاس کے ضلعوں میں رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہم گرفتاری تیز کرنے کے لیے غیر ضمانتی وارنٹ کے لیے عدالت جائیں گے، کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔‘‘
پولیس کارروائی ایسی ہے مانو کوئی دشمنی ہو۔ سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق کے خلاف کارروائی سے تو یہی لگتا ہے۔ برق کا دعویٰ ہے کہ حادثہ والے دن وہ بنگلورو میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگ میں تھے۔ سنبھل میں نہ ہوتے ہوئے بھی انھیں ملزم بنایا گیا اور انتظامیہ نے ان کا مکان منہدم کرنے کا نوٹس جاری کر دیا۔ اس وقت کا بجلی بل اور جرمانہ تھمایا گیا جب شاید سنبھل میں کوئی بجلی اسٹیشن بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے سیاسی اسباب ہیں۔
مندر، کھدائی اور سیاست
سپریم کورٹ نے سنبھل میں جامع مسجد سروے سے متعلق کارروائی پر اگلے حکم تک روک لگائی ہے، لیکن انتظامیہ خاموش بیٹھنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ ان گھروں میں بھی مندر تلاش کیے جا رہے ہیں جو سالوں پہلے ہندو کنبوں نے مسلمانوں کو فروخت کر دیے تھے۔ انتظامیہ نے کھگو سرائے محلہ میں ایسا مندر ملنے کا دعویٰ بھی کیا۔ دعویٰ ہے کہ جس گھر میں مندر تھا، اس کا مالک 46 سال قبل ڈر سے بھاگ گیا تھا۔ اسی طرح لڑائی سرائے میں ایک مبینہ باؤڑی کی کھدائی نے خاصی ہلچل مچا رکھی ہے۔ میڈیا نے کھدائی کی منٹ در منٹ کوریج دکھائی اور انتظامیہ نے اسے اس طرح پیش کیا جیسے ہڑپا دور کی چیزیں مل گئی ہوں۔
سپریم کورٹ سے سنبھل معاملہ میں ایک بار پھر مداخلت کی اپیل کی گئی تو 10 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے کنویں کے سلسلے میں سنبھل نگر پالیکا افسران کے ذریعہ مبینہ طور پر جاری ’نوٹس‘ پر روک لگا دی۔ عدالت نے 2 ہفتہ میں اسٹیٹس رپورٹ دینے کو کہا ہے۔ حالانکہ یوپی حکومت کے مطابق کنواں سرکاری زمین پر تھا۔ یہ مداخلت مسجد انتظامیہ کمیٹی کے دعوے پر ہوا کہ سنبھل نگر پالیکا کے نام والے ایک پوسٹر/نوٹس میں وہ کنواں ہری مندر کے ایک گوشے میں ہونا بتایا گیا ہے۔
اس سے قبل 12 دسمبر 2024 کو ’پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991‘ سے متعلق کئی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سنبھل معاملے سمیت زیر التوا مقدمات میں ذیلی عدالتیں عبوری یا آخری حکم جاری نہیں کریں گی، جس میں سروے کا حکم بھی شامل ہے۔ لیکن لگتا نہیں کہ پولیس، انتظامیہ اور حکومت موجودہ حالت کو بنائے رکھنے کے موڈ میں ہے۔ بلڈوزر کھدائی میں باؤڑی ملنے کے بعد مقامی ہندو طبقہ اس جگہ پر پوجا پاٹھ کرنے کا مطالبہ کرنے لگا جس پر مسلم طبقہ نے مخالفت کی تو علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ اُدھر سماجوادی پارٹی کے چیف اکھلیش یادو نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ لکھنؤ میں وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش کے نیچے ایک شیولنگ دبا ہوا ہے، اس کی کھدائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
تجاوزات مخالف مہم
سنبھل ضلع انتظامیہ نے شہر بھر میں ایک وسیع تجاوزات مخالف مہم شروع کی ہے۔ صدر کوتوالی سے محض 250 میٹر پر سنبھل جامع مسجد کے پاس واقع ’اکرم موچن کنویں‘ کے آس پاس کھدائی شروع ہوئی۔ 19 دسمبر کو رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق کے نو تعمیر گھر کے باہر بنی ’ناجائز‘ سیڑھیاں بلڈوزر سے منہدم کر دی گئیں۔ چودھری سرائے علاقے میں سڑک کنارے بنی کئی دکانیں بھی ناجائز قبضہ بتا کر توڑی گئیں۔
جنوری کے پہلے ہفتہ میں سنہری مسجد کو ناجائز قبضہ کا نوٹس ملا اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں نے ہی مسجد کا وہ حصہ توڑ دیا۔ 11 جنوری کو بلڈوزر لگا کر کنویں کا راستہ صاف کرنے کے لیے ایک دکان گرائی گئی اور پھر انتظامیہ نے مسجد کے باہر کی 12 دکانیں منہدم کرنی شروع کر دیں، جن میں 11 سے مسجد کو کرایہ ملتا تھا۔ سنبھل ایس ڈی ایم کے سامنے پیش دستاویز غیر رجسٹرڈ پائے گئے۔ ایس ڈی ایم نے بازار کی سڑک کی پیمائش کر دکانداروں کو تجاوزات ہٹانے کے لیے ایک دن کا وقت دیا۔
زبید کی تقریباً 30 اسکوائر میٹر زمین کو ناجائز قبضہ بتاتے ہوئے چہار دیواری توڑی گئی۔ اس کی شکایت سنبھل کی ایس ڈی ایم وندنا مشرا سے کی گئی جنھوں نے صدر کوتوالی کے نئی سرائے علاقہ میں مبینہ ناجائز تجاوزات کو بلڈوز کرایا تھا۔ گزشتہ 3 مہینوں میں شہر کے مختلف حصوں میں سینکڑوں دکانیں اور گھر منہدم کیے جا چکے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔