بی جے پی کی تمام تر تدبیریں ناکام، پہلا راؤنڈ ’انڈیا‘ کے نام...سہیل انجم

پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ 19 اپریل کو ختم ہو گیا۔ اس مرحلے میں 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ دوسرے مرحلے میں 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے

<div class="paragraphs"><p>یو این آئی</p></div>

یو این آئی

user

سہیل انجم

پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ 19 اپریل کو ختم ہو گیا۔ اس مرحلے میں 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ دوسرے مرحلے میں 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن پہلے مرحلے میں رائے دہندگان کے رجحانات، تجزیہ کاروں کے تبصرے و جائزے اور پولنگ بوتھوں سے ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس انتخابی مہابھارت کا پہلا راؤنڈ اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ کے نام رہا۔ عوامی رجحان نے یہ واضح کر دیا کہ ملک میں تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے۔ اور اگر آگے کے مرحلوں میں دھاندلی اور بے ایمانی نہ کی گئی اور ووٹنگ مشینوں اور ووٹوں کی گنتی میں بھی کوئی گڑ بڑ نہ کی گئی تو بی جے پی کا 400 پار کا دعویٰ تو بہت دور اس کا حکومت بنانا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ ابھی تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ 2024 کا الیکشن 2004 کے طرز پر ہو رہا ہے اور جس طرح اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا شائننگ انڈیا کا نعرہ زمین بوس ہو گیا تھا اسی طرح موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کا اب کی بار چار سو کے پار کا نعرہ بھی دھراشائی ہو جائے گا!

اگر ہم این ڈی اے اور بالخصوص بی جے پی کی انتخابی مہم کا اپوزیشن کے اتحاد انڈیا اور خصوصاً کانگریس کی انتخابی مہم سے موازنہ کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ایک طرف کانگریس تعمیری انداز میں مہم چلا رہی ہے تو دوسری طرف بی جے پی جذباتیت کو ہوا دے کر اپنا کام بنانا چاہتی ہے۔ کانگریس رہنماؤں اور بالخصوص راہل گاندھی، ملکارجن کھڑگے اور پرینکا گاندھی جہاں ملک کو درپیش مسائل اٹھا رہے ہیں وہیں بی جے پی اور بالخصوص وزیر اعظم مودی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور دیگر وزراء اور پرچارک عوام کو کبھی مذہب کے نام پر باٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی پاکستان کے نام پر۔ وہ دراصل ابھی براہ راست مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہے ہیں لیکن پاکستان کا نام لے کر بالواسطہ طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔


جب برطانوی اخبار گارڈین میں یہ رپورٹ چھپی کہ ہندوستان نے 2019 میں پلوامہ میں خود کش حملے کے بعد جس میں سی آر پی ایف کے چالیس جوان جان بحق ہوئے تھے، پاکستان کے اندر ٹارگیٹ کلنگ یا نشانہ بند ہلاکتوں کی 20 کارروائیاں انجام دی ہیں تو جہاں وزارت خارجہ کی جانب سے اس کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ ٹارگیٹ کلنگ ہندوستان کی پالیسی نہیں ہے، وہیں مودی اور راج ناتھ نے ان ہلاکتوں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی اور بار بار کہا کہ پہلے یعنی کانگریس کے دور میں ہندوستان بہت کمزور تھا، دشمن ملک مار کر چلا جاتا تھا لیکن اب ہندوستان بہت مضبوط ہو گیا ہے اور اب گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے۔ یعنی مودی حکومت میں ہندوستان میں اتنی طاقت آ گئی ہے کہ ہم دشمن کے گھر میں گھس جاتے ہیں اور اس کے خلاف اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔

جہاں تک ہندوستان کے مضبوط ہونے اور دشمن کے گھر میں گھس کر مارنے کی بات ہے تو کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں بار بار حکومت سے سوال پوچھ رہی ہیں کہ اگر ہندوستان اتنا ہی مضبوط ہو گیا ہے کہ دشمن کے گھر میں گھس کر مارتا ہے تو چین کیوں ہندوستان کے اندر آ کر بیٹھ گیا ہے۔ اسے کیوں نہیں کھدیڑ دیتا یا چین میں گھس کر دشمنوں کو کیوں نہیں مارتا۔ بجائے اس کے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے وزیر اعظم مودی نے اس کو کلین چٹ دے دی اور کہا کہ کوئی بھی ہندوستان کے اندر نہیں آیا اور نہ ہی کسی نے ہماری زمین پر قبضہ کیا۔ جبکہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بار بار کہہ رہی ہیں کہ چین نے ہماری ہزاروں کلومیٹر کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس معاملے میں دونوں میں جو تنازع ہے اس کو حل کرنے کے لیے بیس ادوار کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی ملک دوسرے ملک میں داخل ہو کر کسی کو مارنے کی کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔


دراصل پاکستان کو نشانہ بنانے کے دعووں کے پس پردہ ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر خراب کرنا اور عوام کو دو خیموں میں باٹنا ہے تاکہ جذباتی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔ اسی کوشش میں وزیر اعظم مودی نے پہلے مرحلے کی پولنگ کے دن حالات کو بھانپ کر ایک بار پھر پاکستان کا نام لیا اور ایک انتخابی ریلی میں کہا کہ جو ملک پہلے ہمارے یہاں آتنک سپلائی کرتا تھا اب آٹے کے لیے پریشان ہے۔ ویسے تو اس بیان کا مقصد بھی پاکستان کا نام لے کر بالواسطہ طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے۔ لیکن بعض طبقات کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملک آٹے کے لیے پریشان ہے اور آپ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے اندر انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اور وہ بھی وزیر اعظم کے منصب پر فائز شخص کسی ملک کی اقتصادی بدحالی کا اس طرح مذاق اڑائے تو یہ بہت سطحی بات ہے۔

بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس رہنما راہل گاندھی وغیرہ کے بیانات کو دیکھیں تو کہیں بھی ہلکاپن نظر نہیں آئے گا۔ کانگریس کے رہنما ملک کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہیں اور حقیقی مسائل اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح اگر بی جے پی اور کانگریس کے انتخابی منشور کا موازنہ کریں تو ان میں بھی بہت فرق نظر آتا ہے۔ کانگریس کے منشور میں جہاں بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کے مسائل اور اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی جائز خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بات کی گئی ہے تو وہیں بی جے پی کے منشور میں یکساں سول کوڈ، تین طلاق، سی اے اے، ایک ملک ایک انتخاب اور اسی طرح دیگر جذباتی ایشوز کو اٹھایا گیا ہے۔


لیکن یہ سب چالیں پہلے مرحلے میں ناکام ہو گئیں۔ عوام نے بی جے پی کے تعلق سے کسی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خود بی جے پی کے کارکنوں میں کوئی جوش نہیں دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کی ریڑھ کی ہڈی آر ایس ایس کے کارکن بھی گھروں میں بیٹھے نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار 2019 کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں کم ووٹ پڑے۔ مجموعی طور پر 62.37 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ جب کہ 2019 میں پہلے مرحلے میں 69.43 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ بہار میں سب سے کم 48.5 فیصد پولنگ ہوئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ریاست تمل ناڈو میں جہاں تمام 39 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے، 67.2 فیصد پولنگ ہوئی۔ جب کہ 2019 میں 72.4 فیصد ہوئی تھی۔ راجستھان میں 57.3 فیصد ہوئی۔ جب کہ 2019 میں 64 فیصد ہوئی تھی۔ سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ، جو 77.6 فیصد تھا مغربی بنگال میں دیکھا گیا۔ شمال مشرق کی بی جے پی حکومت والی ریاستوں آسام میں 72.3، میگھالیہ میں 75.5 فیصد، منی پور میں 62.9، اروناچل پردیش میں 67.6 اور تری پورہ میں 80.6 فیصد پولنگ ہوئی۔

اس صورت حال کے پیش نظر اندیشہ ہے کہ بی جے پی باقی مرحلوں میں اپنی سبقت بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ لہٰذا جہاں کانگریس اور اپوزیشن جماعتوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے وہیں عوام کو بھی بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ بی جے پی مذہب کی بنیاد پر کوئی کھیل نہ کھیل سکے اور ملک میں فرقہ وارانہ زہر نہ پھیلا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔