تین ریاستوں میں بی جے پی کی فتح مودی-شاہ کے لیے خطرے کی گھنٹی کیوں ہے؟… دیواکر

بی جے پی قیادت یہ مانتی رہی ہے کہ اس کے پاس مودی ہی ایسا چہرہ ہیں جو جیت دلا سکتے ہیں، لیکن مدھیہ پردیش اور راجستھان کے انتخابی نتائج نے ظاہر کر دیا ہے کہ علاقائی لیڈران کے بغیر مودی کچھ نہیں۔

<div class="paragraphs"><p>نریندر مودی اور امت شاہ</p></div>

نریندر مودی اور امت شاہ

user

دیواکر

پانچ ریاستوں میں سے تین میں بی جے پی کی جیت کا جشن جاری ہے۔ ان ریاستوں کے انتخابی نتائج کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی جوڑی کو سہرا دیا بھی جا رہا ہے اور ان کے پاس اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی ڈھیر ساری وجہ بھی ہوں گی، لیکن بی جے پی میں غیر مفتوح سمجھی جا رہی اس جوڑی کے لیے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ملی جیت خطرے کی گھنٹی بھی ہیں۔

مدھیہ پردیش کی بات کریں تو وہاں بی جے پی اب وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کو کنارے کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتی۔ یاد دلا دیں کہ بی جے پی کی قومی قیادت نے انتخاب کے اعلان سے پہلے ہی شیوراج کو کنارے لگانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ بی جے پی قیادت کو لگتا تھا کہ شیوراج 'اسپینٹ فورس' ہیں۔ اسی لیے مودی کی ہدایت پر بار بار بھوپال پہنچے امت شاہ لمبی لمبی میٹنگوں سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ شیوراج پر مرکزی قیادت کو بھروسہ نہیں ہے اور وہ متبادل پچ تیار  کر رہا ہے۔ لیکن شیوراج نے وہ کر دکھایا جس کا تصور ریزلٹ کے دن صبح تک خود بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں تک کو نہیں تھا۔


راجستھان میں بھی بی جے پی نے مجموعی طور پر یہی سب کچھ کیا تھا۔ وہاں وسندھرا راجے گزشتہ 20 سالوں سے غیر اعلانیہ طور پر بی جے پی کا چہرہ رہی ہیں، لیکن اس مرتبہ انھیں کنارے کرنے کی بی جے پی قیادت نے ہر ممکن کوشش کی۔ حالانکہ راجستھان میں بی جے پی کی جیت اس طرح کی نہیں ہے جس طرح مدھیہ پردیش میں جیت ملی ہے۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج درمیان کے ڈیڑھ سال چھوڑ کر لگاتار دو دہائی سے وزیر اعلیٰ ہیں، جبکہ راجستھان میں ہر پانچ سال میں اقتدار میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ یہاں مودی کے اشارے پر شاہ نے وسندھرا کو نہ صرف کنارے کرنے بلکہ یہ حالت تک پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ کسی طرح انتخاب ہار جائیں۔

ایک وقت یہاں تک قیاس لگنے لگے تھے کہ وسندھرا کے ساتھ اس طرح کا سلوک پارٹی قیادت کرتا رہا، تو وہ الگ پارٹی بنا کر انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ لیکن بالآخر بی جے پی قیادت کو ایک طرح سے وسندھرا کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے، تب ہی بی جے پی اقتدار تک پہنچ پائی ہے۔ یہاں اقتدار کی جدوجہد کا اگلا دور دلچسپ ہونے کا امکان ہے۔ راجستھان کے اعلیٰ عہدہ تک پہنچنے کی راہ میں پارٹی قیادت روڑے اٹکاتا رہے گا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ وسندھرا کے تیر سے مودی-شاہ کس طرح نمٹتے ہیں۔


چھتیس گڑھ کو بھی ٹھیک اسی طرح دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ مرتبہ اقتدار جانے کے بعد سے بی جے پی قیادت نے ایک طرح سے ہتھیار ڈال دیے تھے، لیکن رمن سنگھ نے گاؤں میں گھومنا پھرنا نہیں چھوڑا تھا۔ ریاست کے کسی بھی دیگر بی جے پی لیڈر کے مقابلے میں وہ زیادہ فعال تھے۔ لیکن عین موقع پر بی جے پی قیادت نے مہادیو ایپ کے ہتھیار سے جھوٹ تو پھیلایا ہی، رمن سنگھ کو بھی آخر وقت میں جا کر اہمیت دی۔ ایک طرح سے رمن سنگھ 'پولائٹ' طریقے سے بی جے پی قیادت کو سمجھانے میں کامیاب رہے کہ وہ ان پر داؤ بھلے نہ لگائے، انھیں اہمیت دیں تو اس کا فائدہ پارٹی کو ہی ملے گا۔ مودی-شاہ کو یہ بات بہت دیر سے ہی سہی، سمجھ میں آ گئی۔

جیت کر ہوئی اس ہار میں کچھ دیگر کانٹے بھی ہیں۔ بی جے پی قیادت یہ مانتی رہی ہے کہ اس کے پاس مودی ہی ایسا چہرہ ہیں جو جیت دلا سکتے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے نتائج نے اس کے سامنے یہ سچ لا دیا ہے کہ علاقائی لیڈروں کے بغیر مودی کچھ نہیں ہیں۔ مودی بھلے ہی سب سے بڑے چہرے ہوں، ہونا بھی چاہیے کیونکہ وہ وزیر اعظم ہیں، لیکن ریاستوں کے سرکردہ لیڈروں کے سرگرم تعاون کے بغیر وہ 2024 کے انتخاب میں کچھ اچھا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔


مودی کی راہ میں تو سب سے بڑے کانٹے کے طور پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ابھر رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے بی جے پی کے اندر ہی 'یوگی کو کمزور کرو' والی مہم پھر چل پڑی ہے۔ اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے بیان بھلے ہی پارٹی لائن سے میل نہیں کھاتے، پھر بھی چونکہ امت شاہ نے پیٹھ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے تو موریہ ایسا دکھا رہے ہیں کہ انھیں یوگی کی پروا نہیں۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی فکر یہ ہے کہ تقریباً ملک بھر میں بی جے پی میں نچلی سطح تک کا کیڈر یہ ماننے لگا ہے کہ مودی جب بھی وزیر اعظم کا عہدہ خالی کریں گے اور بی جے پی کبھی کسی طرح پھر اقتدار میں آنے کی حالت میں ہوئی تو یہ عہدہ یوگی سنبھالیں گے۔ یہ مودی کو فکر میں ڈالنے والی حالت ہے۔

اسی لیے یوگی، شیوراج اور وسندھرا کو چاہے وزیر اعلیٰ عہدہ نہ بھی ملے، تب بھی یہ تکڑی مودی-شاہ کی سیاست کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ رمن سنگھ کو ان لیڈروں سے الگ رکھنا چاہیے کیونکہ رمن سنگھ نے کبھی پارٹی قیادت کو چیلنج دینے والی سیاست نہیں کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔