اکھیلیش کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج اب ہے

اگر سماجوادی پارٹی اور مایاوتی کی بی ایس پی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تو ان دونوں پارٹیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا اور بہت ممکن ہے یہ پارٹیاں اپنی سیاسی اہمیت ہی کھو بیٹھیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جواتر پردیش جیتا وہی سکندر! آج مودی ملک میں سکندر ہیں تو اس میں سب سے اہم کردار کسی ریاست کا ہے تو وہ ریاست اتر پردیش ہے کیونکہ اتر پردیش ہی وہ ریاست ہے جہاں سے بی جے پی کو سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ 80پارلیمانی نشستوں میں سے 71نشستوں پر بی جے پی کامیاب ہوئی تھی اور دو پربی جے پی کی اتحادی جماعت یعنی حزب اختلاف کو صرف 7 پارلیمانی نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔بی جے پی نے اتر پردیش کی 71 پارلیمانی نشستیں نہیں جیتی تھیں بلکہ اس نے ان سیٹوں کی بنیاد پر مرکز کے اقتدار کی چابی حاصل کی تھی ۔

2014کے جو نتائج آئے تھے اس سے اتر پردیش کے مرکزی سیاسی کھلاڑی یعنی ملائم اور مایاوتی دونوں ہی حیران اور پریشان ہو گئے تھے ۔ مایاوتی تو زیرو پر ہی آؤٹ ہو گئیں تھی البتہ ملائم کے لئے یہ راحت کی بات رہی کہ ان کے گھر کے بلے باز کم از کم زیرو پر آؤٹ نہیں ہوئے۔کانگریس کے بھی کپتان اور نائب کپتان کم از کم اپنی پچ پر جمے رہے۔ اب عام انتخابات کے لئے الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے اورمودی کی قیادت والی مرکزی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا ہے۔ اب سیاسی پارٹیاں اپنی ٹیم کو چست و درست کرنے میں مصروف نظر آ رہی ہیں ۔ سماجوادی پارٹی نے بھی بظاہر تیاری شروع کر دی ہے۔ سابق وزیر اعلی اکھلیش یادونے اپنے والد کو منانا شروع کر دیا ہے ادھر پارٹی نے بھی اپنے بنیادی آئین میں تبدیلی کر کے اکھلیش کو تین سال کی جگہ پانچ سال کے لئے پارٹی کا صدر منتخب کر لیا ہے ۔ پانچ سال کی مدت اس لئے طے کی گئی ہے تاکہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات بھی اکھلیش کی قیادت میں ہی لڑے جا ئیں ۔ اتر پردیش اسمبلی انتخابات پر تو ابھی بات کرنا ہی فضول ہے کیونکہ ان انتخابات کا سارادارومدار اس بات پر ہوگا کہ 2019کے عام انتخابات میں کس پارٹی کی کیا حیثیت رہتی ہے۔

یہ بات طے ہے کہ اتر پردیش کی سیاست میں 2019 کے انتخابات ایک تاریخی حیثیت رکھیں گے۔ اگر سماجوادی پارٹی اور مایاوتی کی بی ایس پی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تو ان دونوں پارٹیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا اور بہت ممکن ہے یہ پارٹیاں اپنی سیاسی اہمیت ہی کھو بیٹھیں ۔ اگر ان پارٹیوں نے اتحاد نہیں کیا تو یہ بہت ممکن ہے کہ یہ پارٹیاں کہیں تاریخ نہ بن جائیں۔

2019کے عام انتخابات میں سب سےاہم کردار اکھلیش کا ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نوجوان ہیں، ان کی شبیہ صاف ستھری اور اچھا کام کرنے والے وزیر اعلی کی ہے۔ اپنی شبیہ کو مزید اچھا بنانے کے لئےاکھلیش کو کئی محاذ پر کام کرنا پڑے گا۔ پہلے تو انہیں اپنے گھر کے محاذ کو ٹھیک کرنا پڑےگا۔بلکہ ان کو کچھ ایسا کرنا پڑے گا کہ ان کے گھر والے ان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ دوسرا ان کو بی جے پی کے خلاف ایک حزب اختلاف کا بہار کی طرز پر عظیم اتحاد بنانا پڑے گا۔ اس عظیم اتحاد کے لئے اکھلیش کو بی ایس پی اور کانگریس کو ساتھ لانا ہوگا۔ کانگریس کے ساتھ اتنی مشکل نہیں ہونی چاہئے کیونکہ دونوں پہلے بھی اتحاد کر چکے ہیں دوسری طرف راہل اور اکھلیش دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں۔اکھلیش کے لئے اصل چیلنج بی ایس پی کو ساتھ لانے کا رہےگا۔ ویسےاگر زمینی حقیقت دیکھی جائے تو اکھلیش سے زیادہ مایاوتی کو اس اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ اتر پردیش میں سب سے زیادہ اگر کوئی جماعت حاشیہ پر گئی ہے تو وہ بی ایس پی ہی ہے۔

اکھلیش کو صرف سیاسی اتحاد پر ہی کام نہیں کرنا پڑے گا بلکہ زمین پر بھی کام کرنا پڑے گا۔ اکھلیش کو نوجوان نسل کو اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا کیونکہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت بے چینی ہے ۔ اکھلیش کی اہلیہ جو لوک سبھا کی رکن ہیں ا ن کو بھی خواتین میں کام کرنا پڑے گا۔ 2019 کے عام انتخابات جہاں ملک کی سمت طے کریں گے وہیں یہ بھی طے کریں گے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا ۔ پارٹی کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کا مطلب زیادہ بڑا چیلنج اور زیادہ ذمہ داری۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اتر پردیش جیت کر سکندر بنتے ہیں یا نہیں۔

  اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔  

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Oct 2017, 7:58 PM