’شیو سمواد‘ اور ’آپلا بھگوا‘ کے ساتھ سڑکوں پر اترے ٹھاکرے، لیکن شیوسینا ہے کس کی؟

اُدھو ٹھاکرے بھلے ہی وزیر اعلیٰ نہیں رہے، لیکن مہاراشٹر کے لوگ آج بھی انھیں ہی شیوسینا لیڈر مانتے ہیں، لوگ ان کی پارٹی کو اب ’ادھو ٹھاکرے چی شیوسینا‘ کہتے ہیں، اور شندے کے حامی ’شندے چی شیوسینا‘۔

فائل تصویر، آئی اے این ایس
فائل تصویر، آئی اے این ایس
user

سجاتا آنندن

اُدھو ٹھاکرے بھلے ہی وزیر اعلیٰ نہیں رہے، لیکن مہاراشٹر کے لوگ آج بھی انھیں ہی شیوسینا لیڈر مانتے ہیں۔ لوگ ان کی پارٹی کو اب ’ادھو ٹھاکرے چی شیوسینا‘ کہتے ہیں، جبکہ ایکناتھ شندے کے حامی ’شندے چی شیوسینا‘ بولتے ہیں۔ اس دوران پارٹی کے انتخابی نشان، جھنڈے، ٹائیگر کے چہرے اور مراٹھی مانس کی حمایت کے ساتھ شیواجی کی وراثت کو پھر سے حاصل کرنے کے لیے ٹھاکرے کنبہ کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔

ٹھاکرے کنبہ اس جذبہ کا بھی سیاسی فائدہ لینے کی کوشش کر رہا ہے کہ گجرات اکثریتی بی جے پی نے ایک مراٹھی کی بے عزتی کرنے کی کوشش کی ہے۔ بتا دیں کہ ’اکھنڈ بامبے‘ کے وزیر اعلیٰ رہے مورار جی دیسائی کے وقت سے ہی مہاراشٹر کے لوگوں میں گجرات کو لے کر ایک طرح کی ناراضگی ہے، کیونکہ انھوں نے 50 کی دہائی میں شروع ہوئی مشترکہ مہاراشٹر تحریک کے دوران مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا جس میں 106 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔


اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے باہر کی شیوسینا میں فرق مہاراشٹر کے لوگ اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں۔ کسی بھی مشکل حالات میں جدوجہد کرنے والے شیوسینک بارش اور گرمی کی پروا کیے بغیر سڑک پر اترتے ہیں اور ایئرکنڈیشنڈ کمروں کی جگہ سڑک پر جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ شیوسینا کے اسی کردار کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے اُدھو کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے عوام کے درمیان اترے ہیں اور انھوں نے ریاست بھر میں لوگوں سے ’شیو سمواد‘ شروع کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔

اس بار کے ’شیو سمواد‘ کا نظارہ بدلا ہوا ہے۔ حالانکہ 2019 میں بھی آدتیہ ٹھاکرے نے ایسی ایک مہم چلائی تھی لیکن اس وقت آدتیہ ٹھاکرے کو دیویندر فڑنویس کے ماتحت نائب وزیر اعلیٰ کے طور پر تیار کیا جا رہا تھا اور پورا کام پی آر ایجنسیوں نے سنبھال رکھا تھا، جس میں شیو سینکوں کو پیچھے کی قطار میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اس سے بہت اچھی شبیہ اور اثر عوام کے درمیان نہیں بنی تھی۔ لیکن اس بار ساری ذمہ داری شیوسینکوں کے ہاتھ میں ہے اور وہی ’شیو سمواد‘ کا انتظام و انصرام دیکھ رہے ہیں۔


غور طلب ہے کہ شیوسینا اپوزیشن کے طور پر ہمیشہ بہت اثر انداز رہی ہے۔ اقتدار سے سڑک پر جدوجہد کرنے میں شیوسینا ماہر ہے۔ حالانکہ مہاوکاس اگھاڑی حکومت کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ادھو ٹھاکرے کی کافی تعریف ہوئی ہے، لیکن اپوزیشن کے طور پر حالات بالکل برعکس ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ شیوسینا پر بی جے پی کا دباؤ ہے، اور بقول سنجے راؤت بی جے پی تو اب شیوسینا کے نشان کے ساتھ ساتھ دادر واقع سینا بھون اور ماتوشری تک پر قبضہ کرنے کی سازش تیار کر رہی ہے۔ سینا بھون اور ماتوشری وہی جگہیں ہیں جہاں سے بالا صاحب ٹھاکرے نے پانچ دہائی تک شیوسینا کو کنٹرول کیا۔ لیکن اب ایسے اشارے ابھر رہے ہیں کہ ٹھاکرے متحد ہو کر جوابی کارروائی کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ ویسے تو دیویندر فڑنویس بھی مانتے ہیں کہ ٹھاکرے اور شیوسینا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اور ذرائع کی مانیں تو غالباً اسی لیے انھوں نے راج ٹھاکرے سے مل کر ان کے بیٹے امت ٹھاکرے کو شندے حکومت میں وزیر بنائے جانے کی پیشکش کی تھی۔ سرگوشیاں ہیں کہ راج ٹھاکرے نے اس پیشکش کو انکساری کے ساتھ ٹھکرا دیا۔


شیوسینا کے آڑے ترچھے بھگوا پرچم کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ سابق شیو سینک چھگن بھجبل بتاتے ہیں کہ شیوسینا کے شروعاتی دنوں میں شیوسینکوں کو سینکڑوں گج بھگوا رنگ کا پالسٹر دیا گیا۔ لیکن بہت لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے تو انھوں نے اسے آڑا ترچھا کاٹ کر پرچم بنا دیا۔ اسے ایسے ٹرائنگولر (سہ زاویہ) سائز میں کاٹا گیا تھا کہ اس پر کچھ چھاپنے کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی۔ اس طرح تھان کے تھان برباد ہو گئے تھے، تب کہیں جا کر شیوسینکوں کو سمجھ آیا تھا کہ آخر اس کا کرنا کیا ہے۔

بال ٹھاکرے دراصل شیوسینا کا پرچم ویسا ہی چاہتے تھے جیسا کہ شیوجی مہاراج کا بھگوا پرچم ہوتا تھا۔ یکساں سطر میں انگریزی حروف ’وی‘ کا نقشہ بناتا ہوا، ہوا میں لہرانے پر ایک خاص نقشہ ظاہر کرتا ہوا۔ لیکن شیو سینکوں کو تو اس کی پوری سمجھ تھی نہیں۔ بھجبل دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کے بعد شیو سینکوں کے ساتھ بیٹھے اور انھیں سمجھایا کہ کس طرح کپڑا کاٹ کر بھگوان پرچم بنانا ہے۔


اسے بہت ہی آسان رکھا گیا تھا تاکہ کسی قسم کی پریشانی نہ رہے۔ اس میں کوئی اور رنگ کی پٹی نہیں ملائی گئی، ساتھ ہی کسی قسم کی سلائی یا رنگائی کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔ یہ پوری طرح شفاف بھگوا پرچم تھا۔ کئی بار اس پر ایک ٹائیگر یعنی شیر کا نقشہ چھاپا جاتا ہے، اور وہ بھی صرف جوشیلے اثرات پیدا کرنے کے لیے، اور اس پر کئی بار پارٹی کا انتخابی نشان تیر-کمال چھاپا جاتا ہے۔ بال ٹھاکرے پرچم کو لے کر کسی بھی قسم کے تنازعہ سے بچنا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے اسے صرف ’آپلا بھگوا‘ یا صرف ’بھگوا‘ ہی کہا۔

جب راج ٹھاکرے شیوسینا سے الگ ہوئے تھے تو انھوں نے اپنے پرچم کا رنگ بھگوا، سفید اور نیلا رکھا، ساتھ ہی اس میں ہری پٹیاں ڈالیں۔ مقصد پرچم کے ذریعہ سے سبھی طبقات، مسلم اور دلتوں کو بھی متوجہ کرنا تھا۔ لیکن راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) سیاسی طور پر کوئی کمال نہیں دکھا پائی۔ اسی لیے حال ہی میں راج ٹھاکرے نے اپنی پارٹی کے پرچم میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں اور کافی حد تک اسے چھترپتی شیواجی کے پرچم جیسا بنا دیا ہے۔

بھلے ہی انھوں نے اپنی پارٹی کے پرچم میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں، لیکن مراٹھی مانس میں اب بھی شیوسینا کے بھگوا کو لے کر ہی احترام دیکھنے کو ملتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔