کیوں گاندھی کی راہ چلنا مودی کے لئے ناممکن ہے؟

گاندھی جی کے فلسفہ کو جتنی مضبوطی سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اتنی ہی ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ انہیں گاندھی کا نام استعمال کرنے سے روکا جائے جنہوں نے گاندھی جی کے خیالات کا قتل کیا ہے۔

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

آج ہم اس شخص کی سالگرہ منا رہے ہیں جو دنیا کی عظیم ترین شخصیات میں شاہل تھا۔ گاندھی جینتی کے موقع پر ان قدروں اور خیالات کو یاد کرنا بہت ضروری ہے جس کے لئے گاندھی جی نے اپنی زندگی کو قربان کر دیا۔ مہاتما گاندھی کے خیالات اور فلسلہ کو جتنی مضبوطی سے سمجھنے کی ضرورت اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اتنی ہی ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ان لوگوں کو گاندھی کا نام استعمال کرنے سے روکا جائے جنہوں نے گاندھی کے خیالات کا قتل کیا ہے۔

مرکزی حکومت گاندھی جینتی کو ’سوچھ بھارت دیوس‘ کے طور پر منا رہی ہے تاکہ اس کے ’سوچھ بھارت ابھیان ‘ کو عوامی حمایت حاصل ہو سکے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سوچھ بھارت ابھیان ابھی تک ناکام ثابت ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں حکومت نے ایسے اشتہارات پیش کر دئے ہیں جن میں مہاتما گاندھی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو برابر دکھایا گیا ہے۔ کاش ، اگر آج گاندھی جی ہوتے تو انہوں نے یقینی طور پر ایسے پوسٹروں اور اشتہارات کی مذمت کی ہوتی ۔

دراصل اس تشہیر کا سوچھ بھارت ابھیان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ تو سازش ہے گاندھی جی کے نام کا اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کی بنیادی تنظیم گاندھی جی کو لے کر کتنا دوہرا رویہ دکھاتا رہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ گاندھی جی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے ایک وقت میں آ را یس ایس کا رکن تھا۔ گاندھی جی کے قتل میں اس کے پکڑے جانے پر سنگھ نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا تھا لیکن اس کے بھائی گوپال گوڈسے نے جنوری 1994 کو فرنٹ لائن میگزین کو دئے انٹر ویو میں صاف کہا تھا کہ اس کا بھائی آر ایس ایس کا رکن تھا۔ اس نے کہا تھا:

’’ہم سبھی بھائی آر ایس ایس میں تھے۔ ناتھو رام، دتاترے، میں اور گووند۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری پرورش ہمارے گھر کے بجائے سنگھ میں ہوئی تھی۔ سنگھ ہمارے لئے خاندان تھا۔ ناتھورام سنگھ میں ایک ذہن ساز بن چکا تھا ، اس نے اپنے بیان میں بھلے ہی کہا ہو کہ اس نے سنگھ چھوڑ دیا تھا ۔ ایسا اس نے اس لئے کہا تھا کیوں کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد گولولکر اور سنگھ بڑھی مشکل میں پھنس گئے تھے، لیکن اس نے آر ایس ایس کبھی نہیں چھوڑا تھا۔‘‘ --28 جنوری ، 1944 کو فرنٹ لائن میگزین کو دئے انٹر ویو میں گوپال گوڈسے کا بیان ۔

ہمیں آج کے دن یہ بھی یاد کرنا ہوگتا کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس کے ارکان نے مٹھائیاں بانٹی تھیں اور آر ایس ایس پر پابندی بھی لگائی گئی تھی۔ سنگھ کا کنبہ یا اس کی سیاسی شاخ بی جے پی کو گاندھی جی کی تعریف کرنے میں بہت مشکل ہوتی ہے۔ سنگھ کے لئے بائبل اور گیتا کے جیسی کتاب ’بنچ آف ٹھاٹس‘ کے مصنف اور آر ایس ایس کے دورے سر سنگھ چالک اور اس کے اہم مفکر ایم ایس گولولکر نے تحریر کیا ہے کہ:

’’وہ لوگ جو ہندو-مسلم اتحاد کے بغیر سوراج کو ماننے سے انکار کیا تھا دراصل انہوں نے ہمارے سماج کے ساتھ بہت بڑی سازش کی تھی۔ ایسا کر کے انہوں نے قدیمی سماج اور اس کے لوگوں کی روح کو قتل کرنے کا گناہ عظیم کیا تھا۔‘‘
(Those who declared ‘No swaraj without Hindu Muslim unity’ have thus perpetrated the greatest treason on our society. They have committed the most heinous sin of killing the life-spirit of a great and ancient people.”)

اس کے علاوہ گاندھی جی کی جنگ آزادی کی تحریک پر گولولکر کے خیالات تو مزید غیر اخلاقی ہیں۔ گولولکر نے کہا ہے، ’’ کانگریس کی قیادت والی تحریک کا ملک پر بے حد تباہ کن اور خطرناک اثر ہا ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں اور آج بھی، ہمارے ملک پر جو بھی آفتیں آئی ہیں یا بری قوتوں کا حملہ ہوا ہے یہ سب اسی تحریک کا نتیجہ ہے۔‘‘

آر ایس ایس گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کی ہمیشہ تنقید کرتا رہا ہے اور سنگھ نے اسے نامردی کا نام دیا ہے۔ سنگھ پریوار کے ارکان کے لئے ہندو – مسلم اتحاد اور سوکولرازم ایک گالی کی طرح ہے۔ جبکہ گاندھی جی انہیں قدروں کے لئے جدو جہد کرتے رہے۔

آج بی جے پی اور اس کی حکومت کو گاندھی جی کی ضرورت آن پڑی ہے تاکہ اس کی جملہ بازی جاری رہ سکے۔ لیکن اس سب سے اس کا دوگلا پن اور دماغی دیوالیہ پن پی ظاہر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم دل سے سنگھی ہیں اور شاکھا سے نکلے شخص ہیں۔ ملک کی سیاست میں ان کا عروج آ رایس ایس کی حمایت کا نتیجہ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے تعلق سے مودی کے خیالات باقائدہ درج ہیں اور سب جانتے ہیں، انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس گاندھی جینی پر جب مودی مہاتما گاندھی کے تعلق سے اپنا بڑبولاپن دکھائیں گے تو مہیشی کی طرح ان کی آواز کا کھوکھلاپن صاف نظر آئے گا۔ ملک کو حقیقت معلوم ہے اور ان کا نفاق زیادہ دنوں تک چلنے والا نہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Oct 2017, 10:04 AM