اُتر پردیش کے ہجومی تشدد مخالف بل پر ایک نظر... سہیل انجم

ہجومی تشدد سے متعلق قانون وضع کرنے کا مطالبہ مرکزی حکومت سے ایک عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ پارلیمنٹ کے اندر بھی کیا گیا اور باہر بھی۔ لیکن حکومت ہے کہ اپنے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہوئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

اتر پردیش کے لاء کمیشن نے موب لنچنگ یعنی ہجومی تشدد اور قتل کے خلاف ازخود کارروائی کرتے ہوئے ایک مسودۂ قانون تیار کیا ہے جس کے مطابق حملہ آوروں کو سات سال اور اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر پولس افسران یا مجسٹریٹ کو تین سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔

اس مسودہ کا نام ’’اترپردیش ہجومی تشدد مخالف بل 2019‘‘ ہے۔ کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ آدتیہ ناتھ متل کی رپورٹ کے مطابق موجودہ قوانین کافی نہیں ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف مجرموں کو سزا دی جائے بلکہ غفلت برتنے کے لیے انتظامیہ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔


مسودے میں کہا گیا ہے کہ ہجومی تشدد کو الگ جرم مانا جائے تاکہ شرپسندوں میں خوف پیدا ہو۔ اس میں سفارش کی گئی ہے کہ ہجوم کے تشدد سے متاثر شخص کے زخمی ہونے کی صورت میں حملہ آوروں کو سات سال تک کی جیل اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ، شدید چوٹیں آنے پر دس سال تک کی جیل اور تین لاکھ روپے جرمانہ اور ہلاک ہونے کی صورت میں بامشقت عمر قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزائیں سنائی جائیں۔

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی پولس افسر یا ضلع مجسٹریٹ اگر ڈیوٹی سے غافل پایا جائے تو اسے ایک سال کی جیل ہو جو تین سال تک بڑھائی جا سکے اور پانچ ہزار جرمانہ کیا جائے۔ ماحول خراب کرنے والوں کو چھ ماہ کی جیل ہو۔


بظاہر یہ ایک بہت اچھا بل ہے۔ کیونکہ پہلی بار کسی ریاست نے ایسا کوئی بل وضع کیا ہے جو ہجومی تشدد سے نمٹنے کے لیے ہو۔ حالانکہ ایسا قانون وضع کرنے کا مطالبہ مرکزی حکومت سے ایک عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ پارلیمنٹ کے اندر بھی کیا گیا اور باہر بھی۔ لیکن حکومت ہے کہ اپنے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہوئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 2005 سے ہی فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل پارلیمنٹ میں معرض التوا میں ہے۔ اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔

اس بل میں بھی فسادات کی صورت میں مقامی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس بل کو پاس کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔


ایسے میں اگر یو پی کے لاء کمیشن نے اس سلسلے میں ایک بل وضع کیا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یو پی بھی ایک ایسی ریاست ہے جہاں ہجومی تشدد کے واقعات متواتر ہو رہے ہیں۔ جس روز یہ بل منظر عام پر آیا اسی روز اناؤ کے ایک مدرسہ کے بچوں کو جو کہ ایک میدان میں کھیلنے گئے تھے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ جب انھوں نے انکار کیا تو ان پر حملہ کر دیا جس میں کئی طلبہ زخمی ہیں۔ ایک طالب علم کا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا ہے۔

سب سے پہلے تو اس کی سزاؤں پر اگر غور کیا جائے تو وہ ناکافی ہیں۔ ہجومی تشدد میں متاثر شخص کے ہلاک ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کو صرف عمر قید کی سزا کا انتظام کیا گیا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے۔ لہٰذا عمر قید کی سزا کو پھانسی میں بدلا جانا چاہیے جبھی انصاف ہو سکے گا۔


بہر حال یو پی کے لاء کمیشن نے تو اپنا فرض ادا کر دیا لیکن کیا ریاستی حکومت بھی اس بارے میں سنجیدہ ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ وہ بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اناؤ کے واقعہ میں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے ممبران کے شامل ہونے کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ سے جے شری رام کا نعرہ لگوانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی بلکہ بدنام کرنے کے لیے ایسا الزام لگایا گیا ہے۔

ایسے معاملات میں یوگی آدتیہ ناتھ کا رویہ کیسا رہا ہے سب کو معلوم ہے۔ بساہڑہ کے محمد اخلاق کے قتل کے بعد انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس پر گائے کی اسمگلنگ کا کیس درج کیا جائے۔ جبکہ اسے فریج میں گائے کے گوشت کی افواہ پر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یوگی کا مطالبہ تھا کہ اس پر گائے کی اسمگلنگ کا کیس درج کیا جائے۔ اور بھی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ان کی جانبداری پوری طرح بے نقاب ہوتی ہے۔ ایسے میں اس بل کا کیا حشر ہوگا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


حالانکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایسے واقعات کو روکنے پر زور دیا ہے۔ اس نے گزشتہ سال تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے یہاں ہر ضلع میں ایک ایک نوڈل افسر مقرر کریں جن پر ایسے واقعات کو روکنے کی ذمہ داری ہو۔ لیکن شاید چند ہی ریاستوں نے اس پر کارروائی کی ہے باقی نے عدالت عظمیٰ کے حکم کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے ہجومی تشدد کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ’’انڈیا اسپنڈ‘‘ نامی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2017 کے درمیان ایسے واقعات میں 97 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ اس لیے ہوا کہ مجرموں کے خلاف اس طرح سے کارروائی نہیں ہوتی جیسی کہ ہونی چاہیے۔


اگر حکومتوں کے پاس شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی سیاسی قوت ارادی ہو تو ایسے واقعات روکے جا سکتے ہیں۔ اگر ایک بار کسی حملہ آور کو عبرت ناک سزا مل جائے تو دوسرے شرپسندوں میں خوف طاری ہو جائے گا اور وہ ہجوم کی شکل میں اکٹھا ہو کر ایسی واردات انجام دینے کے بارے میں سو بار سوچیں گے۔ اگر ایسا ہو تو کسی نئے قانون کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ملک میں اتنے قوانین ہیں کہ ایسی وارداتیں روکی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے قوت ارادی کی ضرورت ہے اور ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت اس بارے میں نیک نیت ہے۔ اگر ہوتی تو ایسے واقعات رونما ہی نہیں ہوتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM