یوگی حکومت کے 10 ماہ: 921 انکاؤنٹر، 32 ہلاکتیں، 9 نوٹس

اگر کسی حکومت کو دس ماہ کی مدت میں 9 نوٹس جاری ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس حکومت میں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

جب سیاست اور صحافت کا معیار اتنا گر جائے کہ صرف سنسنی خیزی ہی کو اہمیت حاصل ہو تو پھر بہت سی اہم خبریں غیر اہم واقعات کے ہجوم میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں۔ دو روز قبل ایسی ہی ایک خبر آئی کہ اسے تمام بڑے اخباروں کے صفحہ اول کی زینت بننی چاہیے تھی اور تمام قومی نیوز چینلوں پر گھنٹوں مباحثے ہونے چاہئے تھے اور تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اس پر اظہار تشویش کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن وہ خبر نہ تو اخباروں کی زینت بن سکی اور نہ ہی نیوز چینلوں کی سرخیوں میں جگہ پا سکی اور نہ ہی سیاست دانوں کے بیانوں میں اسے اہم سمجھا گیا۔ البتہ ایک انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے اس کی تفصیلات شائع کیں اور ایک نیوز ویب سائٹ نیوز 18 نے ایک چھوٹی سی خبر لگائی۔ باقی اخباروں اور چینلوں کے نزدیک اس خبر کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

وہ خبر ہے اتر پردیش میں دس ماہ کی یوگی حکومت کے دوران 921انکاؤنٹر، ان انکاؤنٹروں میں 32 ہلاکتیں اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے 9 نوٹسوں کا اجرا۔ یعنی دس ماہ کی حکومت کی کارکردگی اتنی اچھی رہی کہ انسانی حقوق کمیشن کو اسے 9 مرتبہ نوٹس جاری کرنا پڑا۔ پہلے انڈین ایکسپریس کی 11 جنوری کی اشاعت میں شائع ہونے والی خبر کا پہلا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

’’جمعرات کو اعظم گڑھ میں ہسٹری شیٹر چنو سونکر پولس انکاؤنٹر میں مارا گیا۔ 20 مارچ 2017 کو یوگی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد یعنی دس ماہ میں یہ تیسواں شخص مارا گیا ہے۔ یہ تیس افراد 29 انکاؤنٹروں میں مارے گئے۔ جبکہ تین پولس والے الگ الگ انکاؤنٹروں میں مارے گئے۔ اس درمیان کل 921 انکاؤنٹر ہوئے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن نے 22 نومبر کو چھ ماہ کے دوارن 19 انکاؤنٹروں پر ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا‘‘۔

نصف صفحے کی اس بڑی رپورٹ میں 27 انکاؤنٹروں کی تفصیلات درج ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس مدت میں 2214 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ 196 ملزم اور 210 پولس والے زخمی ہوئے۔ تین پولس والے مارے گئے اور ایسے 1688 افراد کو گرفتار کیا گیا جن پر پولس کے مطابق انعامات رکھے ہوئے تھے۔

ویسے انسانی حقوق کمیشن نے ا س دس ماہ کے دوران الگ الگ معاملات میں حکومت کو 9 نوٹس جاری کیے ہیں۔ تازہ ترین نوٹس بارہ بنکی میں ڈاکٹروں کی غیر موجودگی میں ایک وارڈ بوائے کے ذریعے اسپتال چلانے کے معاملے میں جاری کیا گیا ہے۔ اتر پردیش کے بچوں کے حقوق سے متعلق کمیشن کی چیئرپرسن جوہی سنگھ کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت نے ان نوٹسوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ اسے ان نوٹسوں کو نظرانداز کرنے کا رویہ ترک کر دینا چاہیے۔ بعض چھوٹی سطح کے افسروں کو معطل کر دیا جاتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ یہ نوٹس الگ الگ معاملات میں جاری ہوئے ہیں ۔ جن میں گورکھپور میڈیکل کالج میں بڑی تعداد میں بچوں کی اموات کا واقعہ بھی شامل ہے۔

جب یوگی آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو انھوں نے بڑے زور شور سے کہا تھا کہ اب ریاست سے مجرموں کا صفایا ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص جرم کرنا چاہتا ہو تو اسے ان کی ریاست چھوڑ دینی چاہیے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پولس انکاؤنٹروں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ پولس انکاؤنٹر ہمیشہ تنازعات کے شکار رہے ہیں۔ اس قسم کی خبریں اکثر و بیشتر آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ فرضی انکاؤنٹر ہواتھا۔ اور فلاں جگہ پولس نے لوگوں کو مار کر اسے انکاؤنٹر بنا دیا۔ بھوپال کی ایک جیل سے سیمی کے آٹھ مبینہ دہشت گردوں کا فرار ہونا اور پھر انکاؤنٹر میں ان کا ہلاک کیا جانا تو کافی سرخیوں میں رہا ہے۔ یو پی میں بھی پولس انکاؤنٹروں پر ہمیشہ انگلی اٹھتی رہی ہے۔ خاص طور پر یوگی حکومت کے زمانے میں ہونے والے انکاؤنٹروں پر۔

انکاؤنٹروں کے علاوہ دوسرے بہت سے معاملات میں بھی حکومت کو نوٹس جاری ہوئے ہیں۔ اگر کسی حکومت کو دس ماہ کی مدت میں 9 نوٹس جاری ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس حکومت میں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ حکومت کو لوگوں کے انسانی حقوق کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔ اگر پروا ہوتی تو نوٹسوں کا جواب دیا جاتا اور ایسے واقعات سے بچا جاتا جو نوٹسوں کو مدعو کرنے والے ہوں۔ لیکن جس طرح ملک کا وزیر اعظم نرالا ہے اسی طرح یو پی کا وزیر اعلی بھی نرالا ہے۔ یوگی جی کو تو پوری ریاست کو بھگوا رنگ میں رنگنے سے ہی فرصت نہیں ہے وہ بھلا لاء اینڈ آرڈر کو کیا بہتر کر پائیں گے۔ البتہ وہ بھی دوسرے بھاجپائی وزرائے اعلی کی مانند سنسنی خیزی میں مہارت رکھتے ہیں یا پھر وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے مذہب کی بنیاد پر عوام کو بانٹا جاسکے۔ مذکورہ انکاؤنٹروں پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بہر حال یہ غور کرنے کی بات ہے کہ دس ماہ میں 921 انکاؤنٹر ہو گئے اور ان میں32 افراد مار دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو 9 بار نوٹس جاری کیے گئے۔ اگر یو پی حکومت میں ذرا بھی شرم ہوتی تو وہ ایسے اقدامات سے گریز کرتی۔ اگر یہ معاملہ کسی غیر بی جے پی حکومت کے ساتھ ہوتا تو بی جے پی کے لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے اور شہریوں کے انسانی حقوق کے نام پر اس حکومت کی ناک میں دم کر دیتے۔ لیکن یوگی جی تو اپنے ہیں۔ ان کے خلاف کیسے بولا جائے۔ وہ تو جو بھی کر رہے ہیں صحیح اور درست کر رہے ہیں۔ لہٰذا یوگی جی زندہ باد۔ ابھی دیکھیے ان کے دور میں کتنے اور انکاؤنٹر ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک سال کے اندر لاء اینڈ آر ڈر کی کیا صورت حال ہوتی ہے اور کیا شہریوں کے انسانی حقوق اسی طرح پامال ہوتے رہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Jan 2018, 9:37 PM