پروین شاکر: عورت کے احساس اور خوشبو کی شاعری

پروین شاکر نے اردو شاعری میں عورت کے جذبات کو نئی آواز دی۔ ان کی شاعری سرحدوں سے آزاد، سچائی اور نسوانی احساسات کی نمائندہ ہے، جو آج بھی اتنی ہی زندہ اور مؤثر ہے

<div class="paragraphs"><p>پروین شاکر</p></div>
i
user

کرشن پرتاپ سنگھ

’میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی،

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا!‘

شعر و شاعری کی دنیا سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والا کوئی شخص شاید ہی ہو جس نے یہ شعر کبھی نہ کہا ہو یا نہ سنا ہو۔ عموماً یہ شعر ہم اپنی یا اپنے سماج کی سچ اور جھوٹ سے جڑی کسی نہ کسی ستم ظریفی کے موقع پر بے تکلفی سے دہرا دیتے ہیں، بغیر یہ جانے کہ اسے کس نے، کن حالات میں اور کس کے لیے کہا تھا۔

سچ یہ ہے کہ کسی ادیب یا شاعر کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ اس کے تخلیق کردہ مصرعے اتنے مقبول ہو جائیں کہ وہ خود اپنے خالق کے نام کی حدوں سے آگے نکل جائیں اور ان میں سمویا ہوا ذاتی دکھ اجتماعی دکھ میں ڈھل جائے، سب کا دکھ بن جائے۔

مردانہ غلبے والی اردو شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو ان کی جائز اور باوقار جگہ دلانے والی، پاکستان میں پیدا ہونے والی شاعرہ پروین شاکر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو نہ تو انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں، نہ شاید ان کا نام تک سنا ہو لیکن اس شعر کو دل کھول کر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اور یوں ثابت کرتے ہیں کہ سرحدیں صرف ملکوں کی ہوتی ہیں، شاعری کی نہیں۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو پاکستان کے تاریخی شہر کراچی میں پیدا ہوئیں، مگر ان کی جڑیں ہندوستان کے صوبۂ بہار تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے والد شاکر حسین ’ثاقب‘ خود بھی شاعر تھے اور تقسیمِ ہند سے قبل بہار کے ضلع دربھنگہ کے علاقے لہریا سرائے میں مقیم تھے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1952 میں جب ان کے گھر پروین کی پیدائش ہوئی تو شاید انہوں نے بھی یہ تصور نہ کیا ہوگا کہ ان کی بیٹی ایک دن اردو شاعری کی دنیا میں صدیوں سے قائم مردانہ اقتدار کو چیلنج کرے گی۔


لیکن وقت نے یہی ثابت کیا۔ جیسے ہی پروین شاکر نے اپنی شاعری میں عورت کے نرم، نازک اور لطیف احساسات کو آواز دینا شروع کیا، اردو شاعری کی وہ روایت متزلزل ہونے لگی جس میں عورت کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس سے پہلے عورت کے جذبات کی ترجمانی کا فریضہ بھی زیادہ تر مرد شاعروں کے ذمہ تھا، چاہے وہ میر تقی میر ہوں، مرزا غالب، اقبال، فیض احمد فیض، اسرارالحق مجاز، جوش ملیح آبادی یا ساحر لدھیانوی۔ عورت کی طرف سے بولنے کی ذمہ داری بھی انہی پر تھی۔ اسی تناظر میں مجاز کا یہ شعر یاد آتا ہے:

’تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔‘

پروین شاکر نے اس روایت کو خاموشی مگر مضبوطی سے توڑا۔ انہوں نے عورت کے دکھ، سکھ، محبت، تنہائی اور داخلی کشمکش کو نہایت سلیقے اور سچائی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا۔ اردو ادب کی دنیا نے اس انفرادیت کو فوراً پہچانا، ان کی شاعری کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 1982 میں جب انہوں نے پاکستان کی سینٹرل سپیریئر سروس (سی ایس ایس) کا امتحان دیا تو اس کے سوالنامہ میں ایک سوال ان کی شخصیت اور فن پر بھی شامل تھا۔ یہ کسی زندہ شاعر کے لیے غیر معمولی اعزاز تھا۔ ایسے میں اگر وہ یہ کہہ کر فخر محسوس کرتیں کہ

’عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی‘


تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا۔ ’خوشبو‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ تھا، جو شائع ہوتے ہی بے حد مقبول ہوا اور نوجوان جوڑوں میں اسے ایک دوسرے کو تحفے میں دینے کا رواج چل نکلا۔

اردو کے ناقدین کے مطابق پروین شاکر پہلی شاعرہ تھیں جنہوں نے ’لڑکی‘ کے لفظ کو اپنی شاعری کا ایسا لازمی جزو بنا دیا کہ اسے ان کے کلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ شعر عورت کے داخلی احساسات کا مکمل آئینہ دار ہے:

’لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب

ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ۔‘

بدقسمتی سے عمر نے پروین شاکر کے ساتھ وفا نہ کی۔ 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک سڑک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ اس وقت محض 42 برس کی تھیں۔ ان کی موت نے پورے ادبی حلقے کو سوگ میں ڈبو دیا، اس لیے کہ وہ ابھی امکانات سے بھرپور تھیں اور ان سے وابستہ امیدیں تشنہ رہ گئیں۔

اگر انہیں طویل عمر ملتی تو یقیناً وہ اردو ادب کی مزید خدمت کرتیں، مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ ان کے ایک مداح نے بجا طور پر کہا، ’1952 میں پیدائش، 1976 میں پہلی کتاب اور 1994 میں ہمیشہ کے لیے خاموشی، کتنا مختصر سا سفر ہے۔ مگر یہ 20–25 برس صدیوں پر بھاری محسوس ہوتے ہیں۔‘


اس مختصر زندگی میں بھی انہوں نے شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ استاد اور اعلیٰ سرکاری افسر کے فرائض انجام دیے۔ ابتدائی جدوجہد کے دنوں میں انہوں نے ’بینا‘ کے قلمی نام سے غزلیں، نظمیں اور اخباری کالم بھی لکھے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی پہلی ہی کتاب بے حد مقبول ثابت ہوئی۔ جہاں ’خوشبو‘ میں نوجوانی کے رومانوی جذبات کی جھلک ملتی ہے، وہیں ان کے انتقال کے بعد شائع ہونے والے مجموعے ’ماہِ تمام‘ میں ان کی ذاتی زندگی کے دکھ اور کرب نمایاں ہیں۔

ادبی ماہرین کے مطابق ان کے اچانک دنیا سے رخصت ہو جانے سے اردو ادب میں جو خلا پیدا ہوا، وہ آج تک پُر نہیں ہو سکا۔ اسی لیے انہیں آج بھی عورت کے لطیف احساسات کی سب سے سچی اور طاقتور آواز مانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں عورت کی لڑکی سے بیوی، ماں اور ایک خودمختار عورت بننے تک کی پوری زندگی ایک خاص لے میں جلوہ گر ہے اور یہ لے اس لیے بھی معتبر ہے کہ وہ خود یہ سب کردار ایک ساتھ نبھا رہی تھیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔