علامہ اقبال، جنہوں نے زبان کو فلسفہ اور انسان کو شعور دیا...حسنین نقوی
علامہ اقبال شاعرِ مشرق ہی نہیں بلکہ ایک فلسفی، مصلح اور انسانِ کامل کے داعی تھے جن کی آواز آج بھی بیداری کی علامت اور شاعری خودی، حریت اور تخلیقی جدو جہد کا استعارہ ہے

ہر سال 9 نومبر ایک غیر معمولی معنوی ہم آہنگی لے کر آتا ہے، یہ دن نہ صرف حکیم الامت علامہ محمد اقبال (1877–1938) کی پیدائش کا ہے بلکہ عالمی یومِ اردو کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ اقبال ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے شاعری کو صرف احساسات کا وسیلہ نہیں بلکہ فکر اور روحانی انقلاب کا محرک بنا دیا۔ وہ شاعرِ مشرق ہی نہیں بلکہ ایک فلسفی، مصلح اور انسانِ کامل کے داعی تھے جن کی آواز آج بھی بیداری کی علامت ہے۔
اقبال کی ابتدائی شاعری وطن کی محبت اور انسانی وحدت کے جذبے سے لبریز تھی۔ اُن کا لازوال نغمہ ترانۂ ہند آج بھی نسلوں کے دلوں میں گونجتا ہے:
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا‘‘
ایسے اشعار اُن کے اُس خواب کی تعبیر تھے جو ایک روحانی اور متحد ہندوستان کو دیکھتا تھا۔ مگر جب وہ یورپ سے واپس آئے تو اُن کی نگاہوں کا زاویہ بدل چکا تھا۔ اب اُن کی توجہ صرف ایک ملک یا قوم تک محدود نہ رہی بلکہ انسان کے اندر موجود الوہی جوہر—خودی—تک جا پہنچی۔
اقبال کے نزدیک ’خودی‘ محض انا یا خود پرستی نہیں بلکہ وہ الوہی شعور ہے جو انسان کو خالق سے جوڑتا ہے۔ اُن کے نزدیک زوال اُس وقت آتا ہے جب انسان اپنی خودی کو فراموش کر دیتا ہے۔ اُن کے مشہور اشعار اس مفہوم کو جاوداں کر گئے:
’’خودی کو کر بلند اتنا
کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے
بتا، تیری رضا کیا ہے؟‘‘
اقبال کے نزدیک آزادی صرف سیاسی نہیں بلکہ روحانی کیفیت ہے جو عشق، عمل اور یقین سے جنم لیتی ہے۔ اُن کے الفاظ میں:
’’غلامی میں نہ کام آتی ہیں نہ شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں‘‘
اقبال کی شاعری نے جذبات اور عقل کے مابین وہ ربط پیدا کیا جو بہت کم شعرا کے حصے میں آیا۔ اُن کی شہرۂ آفاق نظمیں شکوہ اور جوابِ شکوہ ایک عظیم فکری مکالمہ ہیں، جن میں امتِ مسلمہ کی پستی اور خالق کی تنبیہ دونوں جلوہ گر ہیں۔
ان کی انگریزی تقاریر پر مشتمل کتاب ’ری کنسٹرکشن آف ریلیجئس تھاٹ ان اسلام‘ مذہب کو سائنسی شعور اور جدید فلسفے کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش ہے۔ وہ کائنات کو ایک مسلسل تخلیقی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں—جہاں انسان خدا کا شریکِ عمل ہے، تماشائی نہیں۔
’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘
اور اُن کی ایک اور لافانی نظم میں تخلیقی روح کا اعتراف:
’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘
اگرچہ اقبال کے نظریات نے بعد میں پاکستان کے قیام کی فکری بنیادیں فراہم کیں لیکن اُن کا اصل پیغام کسی قوم یا ملک تک محدود نہیں۔ اُن کی شاعری، چاہے وہ اردو میں ہو یا فارسی میں، انسان کے اندر کی قوت کو بیدار کرنے کا درس دیتی ہے۔ اسرارِ خودی سے لے کر ضربِ کلیم تک، اُن کی ہر تصنیف انسان کو اپنی تخلیقی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔
اقبال کے نزدیک اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی اظہار تھی۔ اس زبان میں اُنہوں نے عشق، خودی، یقین اور آزادی کے وہ مفاہیم سموئے جنہوں نے ایک پوری تہذیب کو بیدار کیا۔
’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن‘‘
اقبال کا پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا ایک صدی پہلے تھا۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسان کی اصل قوت اس کے اندر پوشیدہ ہے—اگر وہ خود کو پہچان لے تو دنیا بدل سکتی ہے۔ ان کی شاعری ہمیں محض متاثر نہیں کرتی، بلکہ متحرک کرتی ہے؛ ہمیں تخلیق کے سفر میں شریک کرتی ہے۔
اقبال واقعی وہ شاعر ہیں جنہوں نے ہمیں سوچنا، جینا اور اپنی خودی پہچاننا سکھایا۔ ان کی روشنی آج بھی انسان کے شعور میں ابدی شمع کی طرح روشن ہے—جو کبھی بجھنے والی نہیں۔
(مضمون نگار حسنین نقوی سینٹ زیویئرز کالج، ممبئی کے شعبہ تاریخ کے سابق استاد ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔