جوش ملیح آبادی: میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب... برسی پر خاص

جوش نے آساں گوئی کی بجائے فنی اور علمی انداز پر زیادہ زور دیا اور تفکر کی ایک بلند تر سطح برقرار رکھی اور عوام کی نسبت خواص یعنی پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ مقبول و محترم ٹھہرے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

تنویر احمد

آزادئ ہند کی لڑائی میں صرف ایسے مجاہدین کا کردار نہیں ہے جنھوں نے پروانہ وار میدان میں اتر کر زورِ بازو کا مظاہرہ کیا بلکہ اس میں قلم کے سپاہی بھی ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے اور شمع انقلاب کو اس وقت تک جلائے رکھا جب تک کہ آزادی حاصل نہیں ہو گئی۔ قلم کے ان سپاہیوں میں ایک اہم نام جوش ملیح آبادی کا بھی ہے جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا کہ انھیں ’شاعر انقلاب‘کا لقب حاصل ہو گیا۔ 5 دسمبر 1898 کو ملیح آباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانہ میں آنکھیں کھولنے والے جوش ملیح آبادی کے باغیانہ تیور اور ملک کی آزادی کے تئیں ان کے جذبہ سے سرشار اشعار کو آج بھی جب نوجوان پڑھتے ہیں تو ان کے خون میں ایک اُبال سا پیدا ہو جاتا ہے۔ چند مثال دیکھیں:

اٹھو، چونکو، بڑھو، منھ ہات دھو، آنکھوں کو مل ڈالو

ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو!

--

کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب

--

سنو اے بستگانِ زلفِ گیتی، ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے

کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر، غلامی کی حیاتِ جاوداں سے

--

خواب کو جذبۂ بیدار دیے دیتا ہوں

قوم کے ہاتھ میں تلوار دیے دیتا ہوں

ان اشعار میں جوش ملیح آبادی کے ذریعہ کیے گئے لفظوں کے استعمال اور اس کے در و بست سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پایہ کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں آزادی کی تیز لہر رکھتے تھے۔ حالانکہ آزادی پر مبنی ان کی کئی نظموں میں مشکل الفاظ کا استعمال بھی ہوا ہے جو عام فہم نہیں ہے لیکن اس سے ان کے شعری وقار میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ غالباً جوش کے ایسے ہی کلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والے ظفر اقبال نے لکھا ہے کہ ’’جہاں تک انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو فیض اور حبیب جالب جوش سے زیادہ نمایاں رہے کیونکہ فیض اور بالخصوص جالب نے جس عوامی سطح پر اتر کر شاعری کی، جوش نے آساں گوئی کی بجائے فنی اور علمی انداز پر زیادہ زور دیا اور تفکر کی ایک بلند تر سطح برقرار رکھی اور عوام کی نسبت خواص یعنی پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ مقبول و محترم ٹھہرے۔‘‘

یہ ٹھیک ہے کہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب لوگوں میں جوش سے زیادہ مقبول ہیں، لیکن اس کی یہ وجہ قطعی نہیں ہے کہ ان کا کلام مشکل ہے۔ دراصل جوش ملیح آبادی فراموشی کے بھی شکار ہوئے ہیں اور اس کا اعتراف کئی ادیب کر چکے ہیں۔ محض 10 سال کی عمر میں اشعار کہنے اور عزیز لکھنوی سے اصلاح لینے والے جوش کی شاعری میں الفاظ گل اور بوٹے کی مانند پروئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، اور جن اشعار میں جذبہ آزادی موجود ہوتا ہے وہاں تو لفظوں سے ایک شعلہ پھوٹ پڑتا ہے۔ 1918ء میں لکھی گئی ان کی نظم ’وطن‘ کا پہلا بند دیکھیں جس میں لفظوں کے گل بوٹے صاف نظر آتے ہیں:

اے وطن! پاک وطن! روحِ روانِ احرار

اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن، رنگِ بہار

اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار

اے کہ ہرخار ترا رُوکشِ صد روئے نگار

ریزے الماس کے، تیرے خس و خاشاک میں ہیں

ہڈیاں اپنے بزرگوں کی تری خاک میں ہیں

اور اب اسی نظم کا آخری بند بھی ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ شعلہ فشاں ہیں:

ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے

تیرے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے

تجھ کو، جیتے ہیں تو، غم ناک نہ ہونے دیں گے

ایسی اکسیر کو یوں خاک نہ ہونے دیں گے

جی میں ٹھانی ہے یہی، جی سے گزر جائیں گے

کم سے کم، وعدہ یہ کرتے ہیں کہ مر جائیں گے

طنز و مزاح کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اور پدم شری ایوارڈ یافتہ مجتبیٰ حسین نے اپنے مزاحیہ مضمون ’تکیہ کلام‘ میں جوش کی شاعری میں موجود انقلابی عنصر کی بہترین ترجمانی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’ہمارے ایک اور دوست کا قصہ ہے کہ انہیں عرصہ سے بلڈپریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ بستر پر سوجاتے تو ان کا بلڈپریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔جب ایلوپیتھی علاج سے فائدہ نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کی خدمت حاصل کی گئیں۔ حکیم صاحب نے ان کا بغور معائنہ کیا۔زبان اتنی بار باہرنکلوائی کہ وہ ہانپنے لگے۔ مگر اسی اثناء میں حکیم صاحب کی نظر تکیہ پر پڑی اور وہ تکیہ کی جانب لپکے، شعر کو غور سے پڑھا اور تنک کر بولے: اس تکیہ کو ابھی یہاں سے ہٹائیے۔ بلڈپریشر کی اصل جڑ تو یہ تکیہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کمال کردیا آپ نے۔آپ کو بلڈپریشر کی شکایت ہے اور آپ نے شاعرِ انقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی کا شعر تکیہ پر طبع کروا رکھا ہے۔ جانتے ہیں جوشؔ کی شاعری میں کتنا جوش ہوتا ہے۔ جوشؔ کے شعر پرآپ سو جائیں گے تو دورانِ خون نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا؟ اس تکیہ کو اسی وقت یہاں سے ہٹائیے۔ خبردار جو آئندہ سے آپ نے جوشؔ کے تکیہ پر سررکھا۔‘‘

مجتبیٰ حسین نے یہاں مزاح میں ایک بڑی اور حقیقی بات کہہ ڈالی ہے۔ دراصل جوش کے خون میں ہی گرمی تھی جو اشعار کی شکل میں باہر نکلتی تھی۔ کئی مرتبہ تو انھوں نے چلتے پھرتے ہوئے ایسے اشعار کہہ دیے جو بہترین ادبی نمونے بن گئے۔ ایک واقعہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ پیش آیا جو تاریخ کی کتابوں میں رقم ہو گیا ہے (اتفاق دیکھیے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی وفات بھی 22 فروری کو ہی ہوئی تھی)۔ دراصل جوش ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا آزاد سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے ۔ وہاں ملنے والوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی جب ملاقات کے لئے جوش صاحب کا نمبر نہیں آیا تو انہوں نے اکتا کر ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپراسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھیجوادیا:

نامناسب ہے خون کھولانا

پھر کسی اور وقت مولانا

مولانا نے یہ شعر پڑھا تو زیر لب مسکرائے اور فی الفور جوشؔ صاحب کو اندر طلب کرلیا۔ گویا کہ جوش صاحب عام گفتگو میں بھی شعر اس طرح کہتے تھے جیسے ان کی زبان سے لعل و گوہر ٹپک رہے ہوں۔

بہر حال، جوش ملیح آبادی انقلابی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ رومانی شاعر بھی تھے اور ان کی غزلوں میں رومانیت کا عنصر بھی خوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ جوش ملیح آبادی کی شعری صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے عمر میں بڑے فراق گورکھپوری انھیں اپنا استاد کہتے تھے۔ فراق نے اس بات کا اعتراف ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کیا تھا اور بتایا تھا کہ انھیں اپنی غزل مکمل کرنے کے لیے ایک مناسب لفظ کی ضرورت تھی اور کافی مشقت کے بعد بھی انھیں کامیابی نہیں ملی تو جھجکتے ہوئے جوش کے پاس گئے۔ جوش کے منھ سے وہ لفظ ایک رتن کی طرح باہر آیا تھا۔

22 فروری 1982 کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہنے والے جوش کی شاعری بھلے ہی زبان زد عام نہ ہو لیکن دنیائے اردو ادب سے تعلق رکھنے والی حساس شخصیتوں نے انھیں ہمیشہ پایہ درجہ کا شاعر قرار دیا۔ چند ادیبوں کی آرا بطور مثال پیش خدمت ہیں:

’’جوش کا کلام لفظوں کی انمول اور بے مثال قوس قزح ہے۔ رنگ، احساس اور تصور کا ایسا خزانہ جس کی مثال سودا، نظیر اور انیس کے علاوہ ہزار سال کے اردو ادب میں ناپید ہے۔‘‘ (پروفیسر محمد حسن)

’’جوش کے لہجے میں ایسا طنطنہ اور مردانگی تھی اور ان کی آواز میں ایسی گھن گرج، کڑک اور دبدبہ تھا کہ معلوم ہوتا تھا گویا ہمالیہ لرز رہا ہے یا زلزلہ آ گیا ہے۔‘‘ (گوپی چند نارنگ)

’’جوش نے اپنے محسوسات اور تصورات کے مختلف رنگوں سے جس خوبصورت اور زندگی سے بھرپور شعری کائنات کی تخلیق کی ہے اس کا مرکزی کردار انسان ہے۔‘‘ (محمد مثنیٰ رضوی)

’’حضرت جوش ملیح آبادی ہمارے ملک کی جنگ آزادی کے سورما اور صف اول کے شاعر تھے۔ ٹیگور اور اقبال کے بعد نرالا، ولاٹھول اور سبرامنیم بھارتی جیسے بڑے شاعر ہندوستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن تھے اور جوش بھی اسی مرتبہ کے شاعر تھے۔‘‘ (کنور نٹور سنگھ)

ہم جوش ملیح آبادی کی 36ویں برسی منا رہے ہیں لیکن ان کے کئی اشعار کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آج بھی ہمارے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دور کئی معنوں میں مشکلات سے بھرپور ہے اور یقیناً ہمیں ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ اسی لیے جوش کے اشعار نوجوانوں کو جگانے کی، بیدار کرنے کی اور آگے بڑھ کر حالات کو بہتر بنانے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ آخر میں ان کی نظم ’اے نوعِ بشر جاگ‘کے بطورِ نمونہ اور بطورِ خراجِ عقدت دو بند پیش خدمت ہیں:

اک عمر سے برپا ہے دلِ سنگ میں کہرام

مضطر ہے ترشنے کے لیے خاطر اصنام

میدان میں بے تاب کہ شہروں کے ملیں نام

ذرات کے سینوں میں پر افشاں ہیں در و بام

معمار! تری سمت ہے گیتی کی نظر جاگ

اے نوعِ بشر! نوعِ بشر! نوعِ بشر جاگ

تاریخ غلط لہجہ کی ہے شوخی گفتار

یہ قول کہ تو بھی تھا کبھی زیرک و بیدار

واللہ کو یہ ڈینگ ہے اے یار زبوں کار

اور سچ بھی ہو بالفرض تو اے فتنہ و نادار

ہاں بارِ دگر، بارِ دگر، بارِ دگر جاگ

اے نوعِ بشر، نوعِ بشر، نوعِ بشر جاگ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2018, 11:56 AM