ثمینہ سید: نسائی درد محسوس کرنے والی قلمکار

ثمینہ سید اردو ادب کی معتبر فکشن نگار، شاعرہ اور براڈکاسٹر ہیں، جو عورت کے جذبات، سماجی ناہمواریوں اور انسانی رشتوں کی نزاکت کو خوبصورتی سے لفظوں میں سمو دیتی ہیں

<div class="paragraphs"><p>ثمینہ سید</p></div>
i
user

جمال عباس فہمی

''سرد ہوا بالوں کی لٹیں نکالتی اور شرارتیں کرتی جارہی تھی.میں کانوں کے پیچھے اڑستی تو لٹ پورے زور سے بپھر جاتی. کپڑے کہیں کے کہیں اڑ رہے تھے.وجود میں سامنے پھیلے تاحدِ نگاہ دریا کی لہروں جیسا شور تھا.ایک لمحے کو تو دل چاہا خود کو اس کے سپرد کردوں .یہ بھی تو دیکھے میری"خود سپردگی" یہ بھی تو ہار سے شناسائی پائے.لہروں کو ادھر سے ادھر کرنے کو ہی کام سمجھا ہوا ہے اس نے.یہ جو قد بت کے اندر قید وجود ہے اس کو بنا سنوار کے ,بت کے اندر سمیٹ کے رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.یہ کارِدشوار میں نے کیا ہے تمام عمر.اس دریا کو تو لوگوں نے بند باندھے ہیں. ان لوگوں نے..... جنہوں نے میرے سارے بند توڑ دئیے.شرافت کے, انا کے, غرور کے, مان کے...... حتیٰ کہ...... ایک لمحے میں میری نفرت دریائے کنہار کے پھیلاؤ سے کہیں زیادہ ہوگئی۔''(افسانہ۔جس تن لاگے)

" مومی چپ کر جا ۔ بےشرم چپ کر جااا" اماں پوری قوت سے دھاڑیں تو وہ ہنسنے لگی.ان کے سونے گھر میں اس کی ہنسی مندر کی گھنٹیوں جیسی گونجتی ....ہنسی کی بازگشت دیر تک اماں کا دل جلاتی .وہ ایک ادا سے اماں کے قریب آبیٹھی.

"اماں تو نے کبھی محبت کی ہے؟" سعدیہ آنکھیں پھاڑے اسے گھور رہی تھیں "یہ جو تو کررہی ہے یہ سب ....یہ محبت ہے کیا" اماں نے سوال پہ سوال کیا تو وہ پھر ہنسی وہی دلربا ہنسی

"ہاں محبت ہے یہ .سزا کے جیسی،بددعا کے ،جیسی لہو میں زہر کی طرح کڑواہٹ اتارتی,جلاتی ہوئی روز نئی محبت ....اماں تجھے تو اندازا بھی نہیں ہوسکتا کیسا لطف ہے اس محبت میں" مومنہ نے ایک ادا سے اپنے لمبے بال آگے کیے اور بےپناہ خوب صورت آنکھیں اماں کے درد میں ڈوبے چہرے پہ ڈال کے بولی " یہ محبت وحبت اصل میں کچھ ہے ہی نہیں اماں.لیکن محبوبہ ہونے کا چسکا بہت برا ہے نشہ ہے... باقاعدہ نشہ"۔(افسانہ۔ محبوبہ)

تحریر کا یہ بہاؤ، الفاظ و بیان کا یہ رواں دواں انداز،الفاظ کی یہ چست بندش، خیالات کو خوبصورت لفظوں میں پیرو کر ہار بنانے کا یہ سلیقہ بر صغیر ہند و پاک کی ممتاز فکشن نگار، مضمون نگار، ڈرامہ نگار، تبصرہ نگار، شاعرہ اور براڈ کاسٹر ثمینہ سید کا ہے۔ ثمینہ سید اس وقت فکشن نگاری کی دنیا میں ایک معتبر نام ہیں جنکی فنکاری کا لوہا بانو قد سیہ اور سلمیٰ اعوان جیسی معروف اور مسلمہ فکشن نگاروں نے تسلیم کیا ہے۔ثمینہ ایک ناول اور ایک ناولٹ لکھ چکی ہیں۔ انکے افسانوں کے دو اور شاعری کے دو مجموعے شائع ہو کر قارئیں کی داد و تحسین کا خزانہ سمیٹ چکے ہیں۔ ثمینہ سید پنجابی میں بھی لکھتی ہیں۔ پنجابی کا ایک افسانوی مجموعہ بھی منظر عام پرآچکا ہے۔درمیانہ قد کی ثمینہ سید کے ادبی اور قلمی قد کی بلندی کا اندازہ لگانے کے لئے یہ امر کافی ہیکہ انکی شخصیت اور تخلیقات پر اب تک ایم اے اور ایم فل کے 7 مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ جبکہ کئی اردو اسکالرز پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔۔


کون ہیں یہ ثمینہ سید ۔ انکا خاندانی اور تعلیمی پس منظر کیا ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ثمینہ سید پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک تاریخی اور روحانی شہر پاک پتن میں پیدا ہوئیں ۔ شہر کا پرانا نام اجودھن ہے ۔پاک پتن کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے یہاں پہلی اسلامی حکومت قائم کی تھی۔ ۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی آمد (13ویں صدی) نے شہر کی آبادی اور روحانی حیثیت کو بدل دیا۔ شہر کو "پاک پتن" کا نام ملا، جو امن و پاکیزگی کی علامت ہے۔

ثمینہ سید کا حقیقی نام ثمینہ نورین ہے۔قلمی نام ثمینہ سید ہے۔وہ 10 مارچ 1973 کو پاکپتن میں پیدا ہوئیں۔ والد سید نزیر شاہ سرکاری افسر تھے۔ ادبی ذوق کے حامل نزیر شاہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی،عربی اور فارسی کے بھی عالم تھے۔ثمینہ کے اجداد دہلی سے ہجرت کرکے پاکپتن آئے تھے۔ انکے دادا سید مبارک شاہ دہلی میں حکمت کرتے تھے۔ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے سورہ رحمان کا منظوم ترجمہ کیا تھا۔ جو کتاب کی صورت میں شائع ہوا تھا۔

والد نزیر شاہ کو ورثے میں ادبی ذوق ملا تھا۔ جو انکی تین بیٹیوں اور ایک فرزند میں منتقل ہوا۔ گھر میں شعرو سخن کی محفلیں سجتی تھیں۔ معروف شاعر ساغر صدیقی بھی اکثر ان محفلوں کی رونق ہوتے تھے ۔

ثمینہ نےابتدائی تعلیم پاک پتن میں حاصل کی۔ وہاں سےمیٹرک اور ایف ایس سی کیا۔ کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی۔ شوہر کی حوصلہ افزائی کے سبب بی اے, بی ایڈ کیا۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ لاہور آگئیں ۔۔ثمینہ سید نے اردو اور تاریخ میں ایم اے کیا۔انہوں نے ایم ایڈ اور بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔اس وقت وہ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہیں۔ثمینہ کے والدین لڑکیوں کی تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ یہی وجہ ہیکہ انکی تمام اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور کسی نہ کسی شعبہ میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ثمینہ کی ایک بہن تہمینہ ایم ایس سی ہیں اور 'ایکسپریس نیوز' میں گرافک ڈیزائنر ہیں۔سب سے چھوٹی بہن نوشین نقوی نے صحافت میں ایم اے اور ایم فل کیا ہے۔وہ صحافی کے ساتھ ریڈیو کمپیئر بھی ہیں۔ بھائی تنویر عباس نقوی بھی صحافی ہیں اور زبردست ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ تنویرعباس نقوی کے پاس ہمیشہ معروف فکشن نگاروں کی کتابوں کا خزانہ رہا جن سے انکی بہنوں نے بہت استفادہ کیا ۔ثمینہ کو اپنے خیالات کاغز پر منتقل کرنے کا چسکہ بچپن میں ہی لگ گیا تھا۔ابتدا ڈائری لکھنے سے ہوئی اسوقت وہ ساتویں جماعت میں تھیں۔ وہ نویں جماعت میں تھیں تو پہلی کہانی 'ایک دکھ نرالا' لکھی۔ یہ عباس نقوی ہی تھے جنکی وجہ سے ایک بار ثمینہ کی کہانیاں سپرد آتش ہونے سے بچ گئی تھیں۔ انکی والدہ کو ثمینہ کے لکھنے لکھانے کے شوق سے چڑ تھی ایک روز انکے ہتھے ثمینہ کی کہانیاں لگ گئیں اور وہ انکو نزر آتش کرنے والی تھیں۔ لیکن بھائی نے مداخلت کی اور والدہ کو سمجھا بجھا کر شانت کیا۔


بطور افسانہ نگار انکی شناخت ڈائجسٹ کرن, شعاع,پاکیزہ اور 'خواتین' میں کہانیاں شائع ہونے کے ساتھ مستحکم ہوتی چلی گئی۔ وہ ریڈیو پاکستان کے لئے ڈرامے لکھتی ہیں۔

انکے افسانوں کا مرکزی کردار عورت ہوتی ہے۔ جس تواتر کے ساتھ معاشرے میں اس صنف نازک کو استحصال اور زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے ثمینہ نے اسی تواتر کے ساتھ عورت کے جزبات، احساسات، اسکے ایثار، اسکے جزبہ قربانی اور وفاداری کے مختلف رنگوں سے اپنی تحریر کو سجایا ہے۔

انکے ہر افسانے میں عورت ایک نئے روپ اور رنگ میں نظر آتی ہے۔ وہ اس عورت کے ارد گرد کہانی کاایسا جادوئی تانا بانا بنتی ہیں کے پڑھنے والا انکے بیانیہ کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ ثمینہ کے بنائے ہوئے کہانی کے سحر انگیز جال سے اسی وقت رہا ہوپاتا ہے جب کہانی اپنے منتقی انجام کو پہونچ جاتی ہے۔ ثمینہ اپنی کہانیوں میں معاشرے کے ناسور پر نشتر بھی لگا تی ہیں اور مرہم پٹی بھی کرتی ہیں۔

معروف فکشن نگار بانو قدسیہ کا ثمینہ کے افسانوں کے بارے میں کہنا ہیکہ ” میں خوش ہوں اور بہت مطمئن بھی کہ نثر لکھنے والی عورتوں میں یہ نام ثمینہ سید پوری انسانیت اور زمانہ سازی لیے ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ثمینہ سید کا سفر تسلسل لیے ہوئے ہے۔موضوعات میں تنوع ہے۔ ارتقاءہے صد شکر ہے کہ جمود نہیں۔'' ثمینہ کے طرز تحریر کے سحر کی معروف فکشن نویس سلمیٰ اعوان بھی قائل ہیں۔

وہ کہتی ہیں۔ '' افسانہ ایک سحر ہے جو لکھنے والے کی جادو گری میں مہارت اور پڑھنے والے کو تا دیر گرفت میں رکھے۔میں اس فن میں ثمینہ کو ماہر محسوس کرتی ہوں۔افسانے کی بنت اور نثری اسلوب میں مسلسل محنت ثمیہ سید کی ایک مضبوط شناخت بنا چکی ہے۔''

انکے افسانوں کے دو مجموعے 'ردائے محبت' اور "۔کہانی سفر میں ہے" شاعری کے دو مجموعے' "ہجر کے بہاؤ میں“ اور " سامنے مات ہے" شائع ہو چکے ہیں۔پہلا ناول "دل ہی تو ہے "کے نام سے قارٸین تک ڈاٸجسٹ کے ذریعے پہنچا ۔ "رات نوں ڈکو" کے نام سے پنجابی کہانیوں کا مجموعہ پنجابی داں طبقے میں بہت مقبول ہوا۔انہوں نے یاسین عاطر کی شاعری پر بھی ایک کتاب ترتیب دی ہے۔

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو ثمینہ سید یہاں بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ ان کا اسلوب روایتی اور جدید شاعری کا امتزاج ہے۔ وہ روایتی علامات جیسے چاند، خزاں، اور پتوں کو استعمال کرتی ہیں، لیکن انہیں عصری مسائل سے جوڑ کر ایک منفرد اندازمیں پیش کرتی ہیں۔


ان کی شاعری میں ایک ایسی آواز ہے جو نہ صرف ذاتی تجربات بلکہ اجتماعی شعور کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

قحط سالی سی قحط سالی ہے

دل تری یاد سے بھی خالی ہے

دیکھ تو آسماں کے بستر پر

چاند میری طرح سوالی ہے

آدھا چھپتا ہے آدھا دکھتا ہے

چاند بالکل تمہارے جیسا ہے

ثمینہ کی شاعری صرف ذاتی جذبات تک محدود نہیں، بلکہ وہ سماجی مسائل کو بھی اپنے اشعار میں جگہ دیتی ہیں۔

"آسماں والے کچھ خبر بھی ہے

بھوک اگنے لگی ہے کھیتوں میں" جیسے اشعار سماجی ناانصافیوں اور معاشی تفاوت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ان کی نظم اسے کہنا" میں زندگی کی بے ثباتی اور بے مول ہو جانے کا درد چھپا ہے، جو سماج کے نظرانداز کردہ طبقات کی عکاسی کرتا ہے۔

خزاں کے زرد پتوں کا

کوئی سایہ نہیں ہوتا

بہت بے مول ہو کر جب

زمیں پر آن گرتے ہیں

تو یخ بستہ ہوائیں بھی

انہی کو زخم دیتی ہیں

اسے کہنا

کہ مجھ کو بھول کر بے مول نہ کرنا

نثر ہو یا نظم ثمینہ سید کو پڑھ کر قاری کوایک طمانیت اور فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ثمینہ سید کا تخلیقی سفر جاری ہے ۔ وہ بےتکان مگر معیاری لکھ رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔