ڈاکٹر منظر حسین: ماہر اقبالیات اور معتبر تنقید نگار

ڈاکٹر منظر حسین ممتاز ماہرِ اقبالیات اور نقاد ہیں جنہوں نے اقبال، رومی، دانتے اور مشرقی مفکرین پر گراں قدر تحقیقی کام کیا۔ وہ رانچی یونیورسٹی میں پروفیسر، محقق اور متعدد اعزازات کے حامل ہیں

<div class="paragraphs"><p>ڈاکٹر منظر حسین</p></div>
i
user

جمال عباس فہمی

اقبالیات کا مطالعہ اردو ادب کی ترقی پسند اور فلسفیانہ جہت کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔اقبالیات کے ماہرین نے اردو ادب کے تناظر میں اقبال کو ایک مفکر،دانشور، فلسفی اور انقلابی شاعر کے طور پر پیش کیا ہے۔جن ماہرین نے اردو ادب کو اقبال کی فکر سے مالا مال کیا اور جن کی تنقیدیں آج بھی یونیورسٹیوں اور ادبی حلقوں میں زیرِ بحث ہیں ان میں ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر محمد منور، سلیم احمد، ڈاکٹر محمد رحیم، ڈاکٹر اسلوب انصاری، ڈاکٹر حافظ محمود شیروانی اورڈاکٹر سید عبدالواحد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر پروفیسر منظر حسین کا نام بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر منظر حسین نےمختلف جہات سے اقبال کے حوالے سے کتابیں اور مقالے تحریر کئے ہیں۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بھی اقبال کے حوالے سے ہی تحریر کیا ہے۔ کم و بیش 20 کتابوں کے مصنف ڈاکٹر منظر حسین کی پانچ کتابیں اقبال اور اقبالیات سے متعلق ہیں۔ جن میں اقبال اور اطالوی شاعر دانتے کے شاہکار کلام کا تقابلی مطالعہ اور اقبال اور مشرقی مفکرین کے تعلق سے کتابیں بہت اہم ہیں۔ ماہر اقبالیات ہونے کے ساتھ ساتھ منظر حسین تقابلی ادب، جدید تنقید اور فکشن تنقید کے ماہر کی حیثیت سے بھی اپنی ایک خاص شناخت رکھتے ہیں۔ تنقید کے حوالے سے بھی انہوں نے متعدد اہم کتابیں لکھی ہیں۔

ڈاکٹر منظر حسین کی ادبی حیثیت اور قدو قامت کا ذکر کرنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر، تعلیمی سفر اور ادبی رجحان کے محرکات کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ڈاکٹر منظر حسین 5 جنوری 1958 کو بہار کے جہان آباد میں پیدا ہوئے۔ والد ابولکلام خاں کاشتکار تھے۔ منظر حسین پٹھان ہیں اور انکا سلسلہ شیر شاہ سوری سے ملتا ہے۔ انکے خاندان میں لوگ یا تو کاشتکاری کرتے ہیں یا محکمہ پولیس سے وابستہ ہیں۔ منظر حسین کے اندر ادبی ذوق اپنے چچا نعیم خان مرحوم کی دیکھا دیکھی پیدا ہوا جو تھے تو پولیس میں لیکن غضب کا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انکے خزانے میں بڑی تعداد میں کتابیں تھیں جنکو پڑھ کر منظر حسین کے اندر ادبی ذوق نے انگڑائی لی۔ منظر حسین نے مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا سے بی اے اور ایم اے کا امتحان اعلی امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ ایم اے امتحان میں شاندار کامیابی کے لئے انہیں گولڈ میڈل سے نوازہ گیا۔ انہوں نے پی ایچ ڈی رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے کی، جسکا موضوع ’بہار میں مطالعات اقبال کا تنقیدی جائزہ‘ تھا۔ یہ تحقیقی مقالہ بہار میں اقبالیات پر لکھی گئی پچاس کتابوں کے تجزیہ پر مبنی ہے۔ منظر حسین نے یہ تحقیقی مقالہ پروفیسر وہاب اشرفی کی نگرانی میں لکھا تھا۔

وہ رانچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے دو مرتبہ صدراور ڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل انہیں رانچی یونیورسٹی میں سنڈیکیٹ کے ذریعے لیکچرار، ریڈر اور پروفیسر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے رانچی یونیورسٹی میں مختلف حیثیتوں سے تعلیمی خدمات انجام دیں۔ وہ مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ سنڈیکیٹ، سینیٹ اور ریسرچ کونسل کے ممبر، ریفریشر کورس کے تین مرتبہ کو آرڈینیٹر اور نیٹ، میڈیکل اور انجینئرنگ امتحان کے پرماننٹ آبزرور بھی رہے۔ انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پروجیکٹ ورک کے لئے وزیٹنگ پروفیسر مقرر کیا تھا۔ وہ رانچی یونیورسٹی میں عربی اور فارسی ڈپلومہ کورس کے ڈائریکٹر بھی رہے۔


’اقبال، رومی، حافظ اور ٹیگور کا تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ‘ کے عنوان سے انہوں نے یو جی سی کے ایک تحقیق پروجیکٹ کو مکمل کیا۔اسکے علاوہ اے ایم یو کے فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے 'اقبال کے افکار پر رومی کے اثرات 'کے عنوان سے پروجیکٹ اور این سی پی یو ایل کے پروجیکٹ، 'بہار اور جھار کھنڈ کے علاقائی ادب کی تاریخ' کے موضوع پر بھی کام کیا۔ منظر حسین ریاستی گورنر کے تعلیمی مشیر بھی رہے۔

جہاں تک اقبالیات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے منظر حسین کی دو کتابیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 'اقبال اور دانتے' اور 'اقبال اور مشرقی مفکرین'۔

'اقبال اور دانتے' نامی تصنیف میں منظر حسین نے دونوں شعرا کی شاہکارنظموں کا تقابل کیا ہے۔ 'ڈیوائن کامیڈی' اطالوی شاعر دانتے الیگیری کی شاہکار نظم ہے۔ جس میں ورجل (Virgil) ایک اہم کردار ہے۔ ورجل ایک قدیم رومن شاعر ہے، جو اپنی مشہور نظم اینیڈ (Aeneid) کے لیے جانا جاتا ہے۔ ڈیوائن کامیڈی میں، ورجل دانتے کا رہنما ہے جو اسے جہانِ زیرین (Inferno) اور پُرگٹری (Purgatorio) کے سفر میں رہنمائی کرتا ہے۔

ورجل عقل، حکمت، اور کلاسیکی ادب کی علامت ہے۔ وہ دانتے کو جہانِ زیرین کے مختلف دائروں اور پُرگٹری کے مراحل سے گزرنے میں مدد کرتا ہے۔ چونکہ ورجل غیر عیسائی ہے، اس لیے وہ جنت تک دانتے کے ساتھ نہیں جا سکتا، اور وہاں سے دانتے کی رہنمائی اسکی محبوبہ بیٹریس کرتی ہے۔ دانتے کی اس شاہکار نظم سے تقابل کے لئے منظر حسین نے اقبال کی معروف فارسی مثنوی 'جاوید نامہ' کا انتخاب کیا۔ یہ اقبال نے 1932 میں تحریر کی تھی ۔ یہ مثنوی دراصل اقبال کا خیالی معراج نامہ یا افلاک کا سفر نامہ ہے، جس میں وہ مولانا رومی کی رہنمائی میں مختلف سیاروں اور آسمانوں گزرتے ہوئے آخر کار اللہ کے حضور پہونچتے ہیں۔ یہ دانتے کی ’ڈیوائن کامیڈی‘ سے متاثر ہے، مگر اقبال نے اسے اسلامی تصوف، خودی کی تلاش اور امت مسلمہ کی احیاء کے فلسفے سے آراستہ کیا ہے۔

منظر حسین کی اس تصنیف کے سلسلے میں پروفیسر مظفر حنفی کا کہنا ہیکہ ''اقبال کے بعض ناقدین نے انکی شاعری اور افکار کا موازنہ مغربی زبانوں کے عظیم شعرا اور دانشروں سے بھی کیا لیکن عام طور پر ایسی تحریروں میں انتہا پسندی کی جھلیکیاں نظر آتی ہیں۔ کسی نے کلیم الدین احمد کی طرح مغرب سے مرعوبیت کے زیر اثر اقبال کے کاناموں کو بہت گھٹا کر پیش کیا تو کسی نے پروفیسر عبدالمغنی کی طرح عقیدت کے وفور میں انہیں عالمی ادب کے تناظر میں سب سے بلند قامت ظاہر کیا۔ مقام شکر ہیکہ 'اقبال اور دانتے' کتاب میں اس نوع کی افراط و تفریط سے دامن بچا کر منظر حسین نے 'جاوید نامہ' اور 'ڈیوائن کامیڈی' کا تقابلی اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا ہے۔ یہ مطالعہ ان شاہکاروں کی مختلف فنی اور فکری جہات کا احاطہ کرتا ہے''۔


اقبالیات کے ماہرین نے اس کتاب کو اقبالیات میں ایک اضافہ قراردیا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ معروف ماہر اقبالیات پروفیسر اسلوب انصاری نے لکھا ہے۔

اقبالیات کے سلسلے میں منظر حسین کی ایک کتاب 'اقبال اور مشرقی مفکرین' ہے۔ یہ منظر حسین کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔یہ تقابلی مطالعہ کی ایک بہترین تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مولانا رومی، خواجہ حافظ، شیخ احمد سرہندی ، سر سید احمد خاں،رابندر ناتھ ٹیگور، مولانا آزاد، مولانا مودودی اور مولانا علی میاں ندوی کے درمیان افکارو نظریات کے حوالے سے تجزیاتی اور تقابلی مطالعہ کیا ہے۔

منظر حسین نے نئی نسل کے پڑھنے والوں کی معلومات کے لئے مولانا رومی، حافظ شیرازی اورشیخ احمد سرہندی کی شخصیت ، علمی افکار اور حالات زندگی بھی درج کئے ہیں۔ یہ کتاب منظر حسین کے وسیع مطالعہ کی مظہر ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہیکہ منظر حسین نے یقینی طور پر ان عبقری شخصیات کے افکار ، نظریات و خیالات کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔۔مشرقی مفکرین کا انتخاب کرتے وقت مصنف نے اس بات کا خیال رکھا کہ علامہ اقبال اور ان عبقری شخصیات کے درمیان فکری مماثلت ہے۔

اقبالیات کے حوالے سے انکی کتابیں، اقبال کا تصور تعلیم، سید جمال الدین افغانی اور ہندستان کے دو عظیم مفکرین(سر سید اور علامہ اقبال) اور اقبالیاتی جائزے بھی لائق مطالعہ ہیں۔انکی دیگر کتابوں میں 'تفہیم و تعین قدر' ،جگن ناتھ آزاد ایک کثیر الجہات فنکار' مولانا آزاد کی علمی ادبی و ملی خدمات' طوطی ہند امیر خسرو' مولانا آزاد بحیثیت مفسر قرآن'، جھار کھنڈ کے نمائندہ شعرا، تاریخ کلیر، 'کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری' اور تفہیم و تجزیہ'شامل ہیں۔'تفہیم و تعین قدر' 'تفہیم و تجزیہ' اور 'کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری' تنقید کی گراں قدر کتابیں ہیں۔ منظر حسین جب تنقید کرتے ہیں تو تنقید کے اصولوں سے انحراف کو گناہ تصور کرتے ہیں۔انکی تنقید تعصبات، نظریات اور شخصی ترجیحات سے بالا تر اعتدال،ضبط ،توازن اور معروضیت کی حقیقی تصویر ہوتی ہے۔

منظر حسین نے مولانا آزاد کی معروف کتاب ’جامعہ الشواہد‘ کا مقدمہ لکھ کر اسے شائع کیا۔ انہوں نے بہار اردو اکیڈمی کے لئے صدیق مجیبی کا مونو گرام بھی تحریرکیا۔

منظر حسین کا اسلوب تحریر شستہ ہے۔ انکی تحریر میں روانی ہے۔حالات کی منظر کشی نہایت پر اثر انداز میں کرتے ہیں۔ مولانا رومی کے دور کے حالت بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔


''اس عہد کی ایک شناخت روحانی اقتدار کا ذوق، میدان عمل سے علیحدگی اور گوشہ عافیت کی تلاش تھی۔مسلم معاشرہ بے چارگی، مایوسی، بے یقینی دنیا سے بد دلی، میدان عمل سے کنارہ کشی کرکے خوف و ہراس میں جی رہا تھا۔اگر چہ شاہی بارگاہ میں انتشار اور افرا تفری کا ماحول تھا۔ لیکن صوفیوں اور فقیروں کی خانقاہیں امن و آشتی و سکون و عافیت کا گہوارہ بن گئی تھیں۔ خاص و عام کی آماجگاہ تھیں۔اہل اللہ سے لگاؤ اور خانقاہوں سے رغبت اس عہد کا مزاج بن گئی تھی۔''

منظر حسین کی ادبی خدمات کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیا گیا ہے۔ جدہ اردو اکیڈمی انہیں ایوارڈ دے چکی ہے۔ انہیں اختر اورینوی ایوارڈ سے نوازہ جا چکا ہے ۔مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے انہیں پہلا مولانا آزاد ایوارڈ دیا۔ اردو زبان و ادب میں کارکردگی کے لئے انہیں پہلا گورنر ایوارڈ بھی دیا گیا۔

منظر حسین کی شخصیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے ایک کتاب زیر ترتیب ہے۔ وہ ایک بھرپور ادبی زندگی گزار رہے ہیں۔ انکا رخش قلم بے تکان دوڑ رہا ہے۔ مختلف موضوعات پر کئی کتابیں انکے زیر قلم ہیں۔انکی رہنمائی میں 15 اردو اسکالرز پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔دو اسکالرز پی ایچ ڈی اور دو اسکالرز ڈی لٹ کررہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔