مستقبل کا شاعر ۔ ساحرؔ لدھیانوی، یومِ پیدائش پر خاص

شعراء کی اس کہکشاں میں ساحر لدھیانوی اردو شاعری کے افق پر اس طرح ابھر کر آتے ہیں کہ نہ صرف پورے ادبی منظر نامے پر اپنی چھاپ چھوڑتے ہیں بلکہ ملک کے ہر حساس قاری کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

علی جاوید

’’کہتے ہیں ساحر کا جادو سولہ سال کی عمر میں بڑھ چڑھ کر بولتا ہے۔ اس حساب سے جب میں زندگی کے انسٹھ برس پورے کر رہا ہوں، میرا سولہواں سال میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ یہ شاعری کا جادو ہے یا ساحرؔ کی شخصیت یا اس مارکسی نظر یے کا جس کا وہ زندگی بھر اپنی شاعری میں علمبردار رہا۔ شاید یہ تینوں جذبے آپس میں یوں گھل مل گئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘

یہ خیال ہے پاکستان مارکسی ادیب اور نقاد احمد سلیم کا جنہوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’نثر ساحر‘ کے اپنے نوٹ میں تحریر کیا ہے جو سنہ 2006 ء میں کراچی سے چھپی۔

ساحرؔ زندہ ہوتے تو آج یعنی 8 مارچ 2018 کو 97 برس کے ہوتے یعنی وہ 8 مارچ 1921 کو غیر منقسم ہندوستان کے پنجاب کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے ۔ باپ نے بیٹے کا نام عبد الحئی رکھا جو بقول احمد راہی، ’’اس کا نام پیار محبت کے نیک جذبے کے تحت نہیں بلکہ ایک دشمن پڑوسی، اس وقت کے یونینسٹ پارٹی کے وزیر تعلیم میاں عبدالحئی کو گالیاں دینے کے لئے رکھا تھا۔‘‘ خود احمد راہی کے مطابق ’’ساحر کی زندگی میں ایک محبت ہے۔ ایک نفرت۔ محبت اس نے صرف اپنی ماں سے کی ہے اور نفرت صرف اپنے باپ سے۔‘‘

ساحرؔ جس دور میں پیدا ہوئے وہ اس لحاظ سے زبردست ادبی اور سیاسی بیداری کا دور تھا۔ ساری دنیا میں سامراجواد اور فاشزم کے خلاف صرف ایشائی سطح پر نہیں بلکہ عالمی بیداری کا زمانہ تھا۔

ایسا وقت کہ جب دنیا کے مختلف ممالک کے عوام امن اور آزادی کے پرچم تلے انسان کے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے متحد ہو رہے تھے۔ ساحر نے اس دنیا میں اس وقت آنکھ کھولی جب ان کی پیدائش کے چار سال قبل سوویت یونین قائم ہو چکا تھا اور لینن کی قیادت میں مارکسی نظریات کی بنیاد پر مزدوروں کی پہلی حکومت وجود میں آچکی تھی۔

بین الاقوامی سطح پر اس سیاسی اور سماجی حالات سے متاثر ساری دنیا میں امن و آزادی کی تحریکوں میں ادیبوں، شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات کے ذریعے عوامی بیداری میں بھرپور شرکت کی اور ان ہی اثرات کےتحت ہمارے ملک میں سنہ 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل عمل میں آئی۔ گو کہ ترقی پسند ادبی تحریک سے قبل ہندوستان کے ادیبوں اور شاعروں نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن انجمن کی تشکیل کے بعد ادیبوں اور شاعروں نے تنظیمی سطح پر برطانوی سامراج اور فاشزم کے خلاف عوامی بیداری کے لئے اپنے قلم کا استعمال کیا۔ ایسے ماحول میں اقبال ؔ، جوش ؔاور فیضؔ جیسے شعراء نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سماج پر گہرے اثرات چھوڑے تھے۔

بشکریہ ساحر لدھیانوی ڈاٹ کام
بشکریہ ساحر لدھیانوی ڈاٹ کام
رندھاوا، ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر

ان کے علاوہ اردو شعراء کی ایک پوری کہکشاں ہندوستان کی ذہن سازی کرتے نظر آتے ہیں جن میں جگرمراد آبادی، علی سردار جعفری، ن۔م۔ راشد، کیفی اعظمی، مجاز لکھنوی، فراق گورکھپوری، سلام مچھلی شہری، احمد ندیم قاسمی، حفیظ جالندھری، اختر الایمان ،جذبی کے ساتھ شعرا کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار ہے جن میں ہر شاعر اپنے اسلوب اور لہجے کے اعتبار سے الگ الگ پہچان رکھتے ہیں۔

شعراء کی اس کہکشاں میں ساحر لدھیانوی اردو شاعری کے افق پر اس طرح ابھر کر آتے ہیں کہ نہ صرف پورے ادبی منظر نامے پر اپنی چھاپ چھوڑتے ہیں بلکہ ملک کے ہر حساس قاری کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔ ساحر کی غیر معمولی مقبولیت کے نتیجے کے طور پر ان پر سطحی یا ہنگامی جذباتیت کی بات کر کے یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی شاعری کا معیار محض فلمی مقبولیت کے اثر کے تحت نیم پختہ ذہن کو ہی اپیل کرتی ہے۔ یہ باتیں ان حلقوں کی طرف سے زیادہ زور دیکر کہی گئیں جو ادب کی مقصدیت اور ادب و عوام کے رشتے کے سخت مخالف ہیں اور ادب کو ذاتی سطح پر ذہنی عیاشی تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔

قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ترقی پسند ناقدین بھی اس الزام کے تلے دب کراحساس کمتری کا شکار ہوتے نظر آئے، جبکہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی ساحر کی شاعری میں وہی تازگی محسوس کی جا سکتی ہے جو آج سے ستّر، اسّی سال پہلے تھی۔

ساحر کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے فلمی میدان میں بھی ادبی میعار سے سمجھوتا نہیں کیا اور عوام کے ادبی ذوق کی تربیت کی۔ ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ شروعاتی دور میں ہندوستانی فلموں میں شاعر کو اس کی تخلیق کا کریڈٹ نہیں دیا جاتا تھا۔ ساحر نے فلم انڈسٹری کو اس بات کے لئے مجبور کیا اور شاعر کی ادبی حیثیت کا اعتراف کیا جانے لگا۔

ساحر کی طالب علمی کے زمانے میں امرتسر اور لاہور اردو کے بڑے ادبی مرکز ہوا کرتے تھے جہاں فیض، منٹو، حمید اختر، چراغ حسن حسرت، محمد دین تاثیر، احمد ندیم قاسمی، ابن انشا، فکر تونسوی، گوپال متل، دیویندر ستیارتھی، ظہیر کاشمیری جیسے ادیب اور شاعر اپنے فن کا لوہا منوا چکے تھے۔

اس دور پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ کا پہیا پھر پیچھے کی طرف گھوم گیا۔ ہر طرف تعصب، نفرت اور شدت پسندی کا بازار گرم۔ مذہبی منافرت کی آگ میں پورا معاشرہ جھلس رہا تھا۔ ان کی شروعاتی دور کی نظم کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کیجیے کہ ساحر کی یہ تخلیق دور حاضر کے حالات کی عکاس ہے یا نہیں:

کرشن کی بھیڑیں، رام کی بھیڑیں

بدھ مت اور اسلام کی بھیڑیں

ان کو اللہ والی کہہ کر

وحدت کی متوالی کہہ کر

جب جی چاہے، مت پلٹا دو

مت پلٹا دو ، بھینٹ چڑھا دو


اس میں کوئی شک نہیں کہ ساحر ادب کی اعلیٰ اقدار کے ایسے نمائندہ شاعر ہیں جو میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ کی قائم کردہ روایات کے ترجمان ہیں۔

یہ روایت کبیر کی روایت بھی ہے جو کہتے ہیں۔

تو کہتا کاگد کی لیکھی

میں کہتا آنکھن کی دیکھی

تو ساحر کہتے ہیں۔

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں


یہ خیال کہ ان کی شاعری میں تلخی بہت ہے، سچ ہے۔ جب سنگ دلی، استحصال اور قدم قدم پر مذہبی ریاکاری سماج کو اندھے کنویں کی طرف دھکیل رہی ہے، ایسے حالات میں تخلیقی اظہار میں تلخی ایک فطری عمل ہے جو شاعری میں ساحر کے یہاں تو افسانوی ادب میں منٹو کے یہاں نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ناانصافی اور سماجی نابرابری کے خلاف وہ اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے لیکن

ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے


فیض احمد فیض کی ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ پر غور کیجئے اور ساحر کی نظم کی ان سطروں پر نظر ڈالئے۔

تو میری جان مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ

ہم میں کوئی بھی جہاں نور، جہانگیر نہیں

تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے

تیرے ہاتھوں میں میرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں


پچھلے چند برسوں میں بھک مری اور قرض کے بوجھ کے تلے دبے کسانوں کی خودکشی روزمرہ کے واقعات کا حصّہ بن گئے ہیں۔ ساحر ان کسانوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔

دھرتی کے ان داتا تم ہو

جگ کے پران ودھاتا تم ہو

دھنیوں کی خوشحالی تم ہو

کھیتوں کی ہریالی تم ہو

اونچے محل بنائے تم نے

شاہی تخت سجائے تم نے

ہر بگیا کے مالی تم ہو

اس سنسار کے والی تم ہو

وقت ہے دھرتی کو اپنا لو

آگے بڑھو، ہتھیار اٹھا لو

یا

زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا

کہ نسل آدم و حوّا بلک بلک کے مرے

ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں

کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں

پچاس لاکھ افسردہ سڑے گلے ڈھانچے

نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

خموش ہونٹوں سے دم توڑتی نگاہوں سے

بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں


ساحر کی شاعری میں رومانوی رجحان میں بھی عالمی امن کی آرزو بڑےموثر انداز میں نظر آتی ہے۔ ان کی مشہور نظم جس کا عنوان ’پرچھائیاں‘ ہے، جو اثر چھوڑتی ہے وہ قاری کو ایک عجیب قسم کے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔

رواں ہے چھوٹی سی کشتی ہواؤں کے رخ پر

ندی کے ساز پر ملاح گیت گاتا ہے

تمہارا جسم ہر اک لہر کے جھکولے سے

مری کھلی ہوئی باہوں میں جھول جاتا ہے

میں پھول ٹانک رہا ہوں تمہارے جوڑے میں

تمہاری آنکھ مسرت سے جھکتی جاتی ہے

نہ جانے آج میں کیا بات کہنے والا ہوں

زبان خشک ہے آواز رکتی جاتی ہے

تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں


ساحر کی نظر یں عالمی منظر نامے پر بھی ہیں۔ وہ جنگ کے مخالف ہیں اور اس کو انسانیت کی پامالی سے تعبیر کرتے ہیں۔

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میّتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

دہشت گردی اور بربریت کی مذمت ساحراپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں۔

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا

ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک

خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے

ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے

ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے

ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

اردو زبان کے ساتھ حکومت کا تعصب اور ناانصافی کا رویہ، ساحر کو سخت تکلیف پہنچاتا ہے۔ جشن غالب کے موقع پر حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

غالب جسے کہتے ہیں ، اردو ہی کا شاعر تھا

اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ کرم کیوں ہے

یا

گاندھی ہو کہ غالب ہو انصاف کی نظروں میں

ہم دونوں کے قاتل ہیں، دونوں کے پجاری ہیں


اپنی فلمی شاعری میں بھی ساحر کے ہاتھ ادبی معیار کا دامن نہیں چھوٹتا۔ وہ فلمی شاعری میں بھی انسان دوستی، مذہبی رواداری اور سب سے بڑھ کر انسان کی قدر و منزلت کے نمائندہ شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا

ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا

قدرت نے ہمیں بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی

ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا

یا

نسل آدم کی مجبوری اور لاچاری پر اپنے درد کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:

آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم

(مضمون نگار کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے قائم مقام صدر ہیں اور دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Mar 2018, 10:27 AM