اردو ادب میں پرونوٹ متعارف کرانے والا شاعر عمار اقبال
عمار اقبال نے اردو شاعری میں ایک نئی صنف اظہار کو متعارف کرایا ہے جسے پرونوٹ کہا جاتا ہے۔ یہ نثری نظم ہے جس میں روایتی شاعری کے ڈھانچوں سے ہٹ کر آزادانہ انداز میں خیالات و جذبات کا اظہار ہوتا ہے

اردو شاعری کی دنیا میں بہت کم ایسے قلمکار ہیں جنہوں نے کوئی صنف ایجاد کی ہے یا شاعری میں کسی صنف کو متعارف کرایا ہے۔بیشتر شعرا روایتی طور سےموجود اصناف سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ انکے یہاں جدت طرازی زبان و بیان کی حد تک ہی ہوتی ہے۔ نئی اصناف سخن ایجاد کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام صرف اختراعی اور جدت طراز ذہن کا مالک ہی کر سکتا ہے۔
اختراعی اور جدت طراز ذہن کے حامل گنے چنے قلمکاروں میں حمایت علی شاعر، جاوید اکرم فاروقی اور اسلم حنیف کے ساتھ ایک اور نام لیا جاتا ہے اوروہ ہے عمار اقبال کا۔ حمایت علی شاعر ثلاثی کے موجود ہیں تو جاوید اکرم فاروقی کے سر قطعہ مستزاد کی ایجاد کا سہرا ہے اور اسلم حنیف نے کئی اصناف سخن کی اختراع کی ہے۔ ان میں'موشح نما غزل'،'مثلثی'،'شکل ساز غزل'،'ٹھوس نظم'،'تضمینی غزل' ،'شخصیاتی نثری نظم' اور 'آزاد معریٰ' اور 'نثری توشیح' قابل ذکر ہیں۔ جہاں تک نوجوان قلمکار عمار اقبال کا تعلق ہے تو انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی صنف اظہار کو متعارف کرایا ہے جسے پرونوٹ کہا جاتا ہے۔ یہ نثری نظم ہے جس میں روایتی شاعری کے ڈھانچوں سے ہٹ کر آزادانہ انداز میں خیالات و جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ صنف نثری انداز میں لکھی جاتی ہے۔
عمار اقبال کے ذریعے متعارف کردہ پرونوٹ کی بات کرنے سے پہلے حمایت علی شاعر اور جاوید اکرم فاروقی کے شعری کارناموں کا ذکر بھی کرلیا جائے تو اچھا ہے۔ ۔حمایت علی شاعر نے ثلاثی ایجاد کی ۔ ثلاثی ہائیکو کی طرح تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے۔ ثلاثی غیر مردف ہوتی ہے یعنی اس میں ردیف نہیں ہوتی۔
کس طرح تراش کر سجائیں
نادیدہ خیال کے بدن پر
لفظوں کی سلی ہوئی قبائیں
امروہا سے تعلق رکھنے والے جاوید اکرم فاروقی نے قطعہ کے چار مصروں میں ایک مصرع کا اپنے طریقے سے اضافہ کرکے اسے قطعہ مستزاد کا نام دیا ہے۔ قطعہ مستزاد میں قطعہ کی طرح اس کا دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے ۔اس میں مطلع ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔اس شکل میں بھی تیسرا مصرع ہم ردیف و ہم قافیہ نہیں ہوتا اور قطعہ مستزاد کا پانچواں مصرع دوسرے اور چوتھے مصرع کا ہم قافیہ ہوتا ہے۔
کس نے بھڑکا دیا ہے میرے خلاف
آگ کس کی ہے یہ لگائی ہوئی
کیا تمہیں میرا اعتبار نہیں
یوں جو بیٹھی ہو خار کھائی ہوئی
اتنے غصّے میں تمتمائی ہوئی
اب بات کرتے ہیں عمار اقبال کے ذریعےمتعارف نئی صنف اظہار پرونوٹ کی۔پرونوٹ وزن اور بحر کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے، لیکن اس کا انداز زیادہ ڈھانچہ بند اور سانیٹ (Sonnet) سے متاثر ہوتا ہے۔ اس میں شاعری کی گہرائی، لے، اور جمالیاتی حسن موجود ہوتا ہے۔عمار اقبال کی نثری نظم نے شاعری کو نئے خد و خال عطا کیے، جو روایتی شاعری سے ہٹ کر نئے موضوعات اور بیانیے کو اپناتی ہے۔عمار اقبال پرونوٹس میں جذبات، فلسفہ، اور معاشرتی موضوعات کو نئے زاویوں سے پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ "خودی کا آئینہ" عنوان سے انکا یہ پرونوٹ پیش ہے۔
''میں نے آئینے میں جھانکا تو ایک سایہ کھڑا تھا، نہ مکمل انسان نہ بے جان شبیہ—ایک سوال، جو ہر صبح اٹھتا اور رات کو سو جاتا، مگر کبھی جواب نہ دیتا۔ یہ سایہ کہتا، "تو کون ہے؟ اشرفِ مخلوقات یا بس ایک کڑی، جو زنجیرِ کائنات میں لٹکی ہوئی ہے، اور ہر جھلکی میں دوسرے کی تکلیف کو اپنا سمجھتی ہے؟" میں ہنس پڑا، کیونکہ یاد آیا کہ بچپن میں ماں نے کہا تھا، "بتا، اللہ نے سب کو برابر بنایا، پر تو انسان ہونے کی وجہ سے ذمہ دار بھی ہے۔" مگر اب، جب سڑک پر بھوکے کتے بھونکتے ہیں اور لوگ انہیں پتھر مارتے ہیں، تو سوچتا ہوں: کیا برابری صرف الفاظ میں ہے، یا دل کی دیواروں میں؟
سایہ مسکرایا، "تو نے پرندوں کو قفس میں بند کیا، اور خود کو آسمان کا دعویٰ کیا۔ مگر جب طوفان آیا تو تیرا پروں والا دل بھی توڑ دیا گیا۔ اب بتاؤ، کیا تو اڑ سکتا ہے جب دوسرے کی اڑان توڑ رہا ہو؟" میں خاموش ہو گیا، کیونکہ یاد آیا وہ دن جب میں نے ایک چڑیا کو آزاد کیا، اور اس کی پرواز دیکھ کر اپنے اندر کی قید محسوس کی۔ خودی کا آئینہ جھوٹ نہ بولتا، یہ تو بس عکس ہے—ایک تصویر جو کہتی ہے، "اٹھ، اپنی ہستی کو پہچان، مگر دوسروں کی ہستی کو بھی، ورنہ تو بس سایہ رہے گا، انسان نہ بن سکے گا۔"
عمار اقبال کے ادبی کارناموں پر تفصیلی گفتگو سے قبل انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کے بارے میں جان لینا بھی ضروری ہے۔
عمار اقبال کا خاندان ادبی اور روحانی ورثے سے مالا مال ہے ۔ ان کا شجرہ نسب حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ اسی نسبت سے ان کا خاندان "ادھمی" کہلاتا ہے حضرت ابراہیم کی وفات تقریباً 782ء (165 ہجری) میں ہوئی۔ تخت و تاج کو ٹھکرا کر صوفیانہ زندگی اختیار کرنے کی انکی داستان صوفی شاعر فرید الدین عطار کی کتاب "تذکرۃ الاولیاء" اور مولانا روم کی "مثنوی" میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔
عمار اقبال کے والدین 1970ء کے بعد ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں آباد ہوئے۔ عمار اقبال 25 فروری 1986 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اقبال مسعود ادھمی انجینئر تھے اور پاکستان اسٹیل ملز سے وابستہ تھے ۔ انکی والدہ کا مقدس پیشہ درس و تدریس رہا۔
عمار اقبال نے تعلیمی سفر کی منزلیں کراچی میں ہی طے کیں۔ انہوں نے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ انکی قلمی کاوشوں کا دائرہ غزل نظم اورپرونوٹ گوئی سے لیکر معروف مصنفین کی کتابوں کے اردو تراجم، براڈ کاسٹنگ اور درس و تدریس تک پھیلا ہوا ہے۔ شاعری انہوں نے لڑکپن سے ہی شروع کردی تھی۔ وہ لفظوں کو چابکدستی کےساتھ برتتے ہوئے یکساں طورسے غزلیں اور نظمیں کہتے ہیں۔ انکی ہر قلمی کاوش سے انکی انفرادیت جھلکتی ہے۔ عمار اقبال اپنے خاندان کی روحانی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ معاشرے کی بے حسی، جانداروں کےساتھ نا روا سلوک، مہاجرین کے کرب کو دل کی گہرائی کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ وہ سماجی بیماریوں کی ایک ماہر نباض کی طرح تشخیص بھی کرتے ہیں اور انکا علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔انہوں نے نعیم گیلانی سے شاعری کے گر سیکھے۔
انکی شاعری ، سننے اور پڑھنے والے کو چونکاتی ہے۔ روایتی محبوب، اسکی زلفیں اور اسکے قد وقامت کا ذکر انکی شاعری سے ندارد ہے۔ وہ اچھوتے خیالات منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں۔انکے اشعار کے معنیٰ و مطالب بین السطور میں پنہاں ہوتے ہیں۔
میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے۔
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
۔۔۔۔
اب تو یوں ہے کہ گھٹن بھی نہیں ہوتی مجھے
اب تو وحشت میں گریبان مجھے گھورتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جاسکتے ہو
تم مجھے واقعتاً چھوڑ کے جاسکتے ہو۔
ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو۔
۔۔
عمار کا کلام خود ترسی، خدا ترسی، انسانی نفسیات، زندگی کی حقیقتوں اور شکستہ اقدار کی بحالی پر مبنی ہیں۔ ان کی نظموں کے مرکزی خیالات بھی بہت منفرد ہوتے ہیں۔ انکی نظم کا اختتامیہ بھی چونکانے والا ہوتا ہے۔ 'زبان دراز' کے عنوان سے انکی نظم انکے خیالات کی نیرنگی اور قادر الکلامی کی مثال ہے۔
میں اپنی بیماری بتانے سے معذور ہوں
مجھے زبان کی عجیب بیماری ہو گئی ہے
سو گفتگو سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوں
میرا لہجہ کرخت اور آواز بھاری ہو گئی ہے
زبان میں فی لفظ ایک انچ اضافہ ہو رہا ہے
پہلے بھی تو یہ کاندھوں پر پڑی تھی
تمہیں میری مشکل کا اندازہ ہو رہا ہے
تم جو مجھ سے بات کرنے پر اڑی تھیں
آخری تکرار کے بعد میں نے زبان سمیٹ لی ہے
اب میں ایک لفظ بھی مزید نہیں بولوں گا
کھینچ تان کر زبان اپنے بدن پر لپیٹ لی ہے
دعا نہیں کروں گا گرہ نہیں کھولوں گا
ہر پسلی دوسری پسلی میں دھنستی جا رہی ہے
میری زبان میرے بدن پر کستی جا رہی ہے۔
انکی غزل سے نظم تک، ہر جہت میں رنگ و رس کی ہوس نظر آتی ہے۔عمار اقبال کی غزلوں اور نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ کلام' پرندگی'کے عنوان سے اور نظموں کا مجموعہ 'منجھ روپ' کے نام سے شائع ہوا۔ انکے شعری مجموعات نے انہیں نئی نسل کا محبوب اور پسندیدہ شاعر بنا دیا۔انکی نثری نظموں کے مجموعے 'پرونوٹ' نے ابھرتے ہوئے شعرا کے زوق شعر گوئی کو مہمیز کیا۔عمار اقبال کا بڑا اہم ادبی کارنامہ کافکا، لیونورا کیریگٹن اور البرٹ کامیوں کے شاہکاروں سے اردو قارئین کو روشناس کرانا ہے۔
اپنی گونا گوں صلاحیتوں کو ظاہرر کرتے ہوئےعمار اقبال نے فرانز کافکا کی تحریروں کا اردو میں ترجمہ۔ منجھ روپیت کے نام سے کیا ہے۔ برطانوی ناول نگار Leonora Carrington کے ناول کا 'بیضوی عورت' کے نام سے،ماپاساں، گوگول اور لیو شان کی کہانیوں کاترجمہ 'دیوانوں کی ڈائیریاں' کے نام سے، البرٹ کامیو کے مشہور ناول "L'Étranger" کا اردو ترجمہ عمار اقبال نے "اجنبی" کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ ترجمہ اردو ادب میں بہت مقبول ہوا کیونکہ اسکی زبان سادہ، رواں اور کامیو کے فلسفیانہ انداز سے قریب ہے۔
انہوں نے البرٹ کامیو کی ایک اور تخلیق The Plague کا ترجمہ 'مرگستان'کے نام سے کیا ہے ۔ ناول سطح پر بیماری کی تباہی دکھاتا ہے، لیکن گہرائی میں وجودی بے معنویت، انسانی جدوجہد، اخلاقی ذمہ داری اور آمریت کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ ان کی مشہور کتابیں "مقتل سے جنگ تک"، "تخلیق کائنات" اور "عشق کا قاف" بھی ان کی علمی وسعت کو ظاہر کرتی ہیں۔
عمار اقبال کا قلم فکر و تخیل کی جولانیاں بکھیر رہا ہے اور وہ اپنی ذات کے گہرے سمندر میں شناوری کرکے قیمتی گہر ہائے سخن ذخیرہ کرنے میں مصروف ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔