توشہ خانہ کیس کیا ہے، جس میں عمران خان کو سزا سنائی گئی اور اب ان کے پاس کیا آپشن ہیں؟

درخواست گزار نے کہا تھا کہ عمران خان پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور زیر کفالت افراد کے تمام تر اثاثے چھپائے بغیر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرواتے

عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جس کے بعد انھیں لاہور میں زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے پنجاب پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ عمران خان کو جس مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے وہ توشہ خانہ ریفرنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس ریفرنس کے تحت گذشتہ برس اکتوبر میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو نااہل قرار دیا تھا جس کی مدت موجودہ اسمبلی تک ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں عمران خان کے خلاف فوجداری کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس پر سماعت گذشتہ کئی ماہ سے جاری تھی۔

توشہ خانہ کیس کیا ہے؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے ان کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا تھا جسے سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔


ریفرنس کی کاپی کے مطابق درخواست گزار نے کہا تھا کہ عمران خان پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور زیر کفالت افراد کے تمام تر اثاثے چھپائے بغیر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرواتے۔

دستاویز میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ عمران خان نے ’جانتے بوجھتے‘ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کو چھپایا اور یہ کہ انھوں نے قبول کیا ہے جیسا کہ مختلف میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ انھوں نے یہ تحائف فروخت کیے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے دستاویزات میں ان کی فروخت بھی چھپائی گئی۔

دستاویز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حکومت کے دوران کل 58 تحائف ملے جن میں گراف کی ’مکہ ایڈیشن‘ گھڑی سمیت مختلف اشیا تھیں۔ یہ تحائف عمران خان نے توشہ خانہ سے 20 اور بعد ازاں 50 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے۔

ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی لاگت 30 ہزار روپے سے کم تھی لہٰذا قانون کے مطابق وہ یہ تحائف مفت حاصل کر سکتے تھے جبکہ 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کی قیمت کا 20 فیصد (قانون میں تبدیلی کے بعد 50 فیصد) ادا کر کے حاصل کیے گئے۔

عمران خان کی حکومت کے ابتدائی دو ماہ کے دوران لیے گئے ان تحائف میں گراف کی گھڑی شامل ہے، جس کی مالیت کا تخمینہ آٹھ کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا جبکہ اسی گفٹ سیٹ میں شامل دیگر تحائف میں 56 لاکھ 70 ہزار مالیت کے کف لنکس، 15 لاکھ مالیت کا ایک قلم اور 87 لاکھ 50 ہزار مالیت کی ایک انگوٹھی بھی شامل تھی۔


ان چار اشیا کے لیے عمران خان نے دو کروڑ روپے سے زائد رقم جمع کرائی اور یہ تحائف سرکاری خزانے سے حاصل کیے۔ اسی طرح رولیکس کی ایک گھڑی جس کی مالیت 38 لاکھ تھی، عمران خان نے یہ ساڑھے سات لاکھ کے عوض خریدی۔ رولیکس ہی کی ایک اور گھڑی جس کی مالیت 15 لاکھ روپے لگائی گئی، سابق وزیراعظم نے تقریباً ڈھائی لاکھ میں خریدی۔

اسی طرح ایک اور موقع پر گھڑی اور کف لنکس وغیرہ پر مشتمل ایک باکس کی کل مالیت 49 لاکھ تھی، جس کی نصف رقم ادا کی گئی جبکہ جیولری کا ایک سیٹ 90 لاکھ میں خریدا گیا جس کی مالیت ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد مختص کی گئی تھی۔

دستاویر کے مطابق وہ گھڑی جس کے بارے میں یہ الزام ہے کہ اسے بیچ دیا گیا، وہ بھی الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں درج نہیں کی گئی۔

خیال رہے کہ یہ گھڑی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے پہلے دورے کے دوران تحفے کے طور پر لی تھی۔ اس کی مالیت 85 ملین بتائی گئی ہے جسے توشہ خانے سے 20 فیصد ادائیگی کے بعد لیا گیا۔


عمران خان کے پاس اب کیا آپشن ہیں؟

پاکستان کے قانون کے مطابق عمران خان کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس سزا کے خلاف اعلٰی عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ نامہ نگار شہزاد ملک کےمطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کے پاس موجود قانونی راستوں کے آپشن میں سب سے پہلا آپشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلے کو چیلینج کرنا ہے۔

شہزاد ملک کے مطابق عدالت کی جانب سے حکم امتناع آنے پر ایک ممکنہ ریلیف عمران خان کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ عدالت دلائل سن کر فیصلے تک ان کی سزا معطل کر سکتی ہے۔ اس صورت میں عمران خان کو عدالت ضمانت پر رہا کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔ شہزاد ملک کے مطابق اگر ہائی کورٹ ان کی سزا برقرار رکھتی ہے تو ان کے پاس آخری آپشن سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا ہوگا۔

(بشکریہ بی بی سی اردو)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔