بے نظیر بھٹو کو ہم نے مارا: طالبان کا اعتراف

کتاب میں کہا گیا کہ بے نظیر کو مشرف حکومت نے کراچی حملوں کے باوجود مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی تھی اس وجہ سے طالبان حملہ آوروں کو آسانی سے بے نظیر تک رسائی ممکن ہوگئی تھی۔

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اسلام آباد: پاکستان کی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پہلی مرتبہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں اس کا ہاتھ تھا۔

ٹی ٹی پی نے یہ بھی پہلی مرتبہ اعتراف کیا ہے کہ طالبان گروہ اور تنظیمیں ماضی میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے تحریک ہی کی چھتری تلے ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، اجرتی قتال جیسی کارروائیوں میں ملوث رہیں۔

واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد فائرنگ اور خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ اس وقت پرویز مشرف کی حکومت نے ٹی ٹی پی کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا لیکن طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی ۔

ٹی ٹی پی کی طرف سے یہ اعتراف 690 صفحات پر مبنی ’فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘ نامی کتاب میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ٹی ٹی پی کی 2001 سے لے کر 2017 تک تاریخ رقم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2007 میں کراچی میں بے نظیر بھٹو کے جلسے میں خود کش حملے بھی طالبان کے شدت پسندوں نے کئے تھے جس میں 140 کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوئے تھے لیکن بے نظیر بھٹو محفوظ رہی تھی۔ اس کے تین دن بعد لاڑکانہ میں بھی حملے کا پروگرام بنایا گیا تھا لیکن طالبان میں موجود ایک جاسوس نے پولس کو معلومات فراہم کیں جس کی وجہ سے منصوبہ ناکام ہوگیا تھا۔

کتاب کے مطابق بے نظیر کو مشرف حکومت نے کراچی حملوں کے باوجود مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی تھی اس وجہ سے طالبان حملہ آوروں کو آسانی سے بے نظیر تک رسائی ممکن ہوگئی تھی۔

بلال نامی ایک شدت پسند جس کو سعید کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور دوسرے شدت پسند اکرام اللہ کو بے نظیر بھٹو پر حملے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ کتاب کے مطابق سعید نے پہلے بے نظیر پر فائرنگ کی جس سے ان کو گلے میں گولی لگی اور بعد میں اپنے جسم میں نصب بم سے دھماکہ کیا ۔ اکرام اللہ حملے کے بعد وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا اور وہ اب بھی زندہ ہے۔

کتاب کے مطابق طالبان تحریک کے بانی بیت اللہ محسود نے بے نظیر بھٹوکے قتل کی منظوری دی تھی کیونکہ طالبان رہنماؤں کا خیال تھا کہ بے نظیر کو امریکا نے ایک منصوبے کے تحت شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوں کیلئے پاکستان بھیجا ہے۔ طالبان کے ایک سابق رہنما کے مطابق کتاب میں اکثر معلومات درست ہیں اور مصنف بیت اللہ محسود کا قریبی دوست تھا۔ یاد رہے کہ بیت اللہ 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کتاب میں اپنی ذرائع آمدن کے بارے میں تحریک نے بتایا کہ سال 2007 میں جنوبی وزیرستان میں اہلکاروں کے علاوہ مختلف قسم کے اسلحے اور گاڑیوں سے لیس ایک فوجی قافلے کو اغوا کے واقعے کے بعد حکومت سے ایک معاہدے کے تحت یہ سب کچھ مبینہ طور پر 6کروڑ روپے کے بدلے واپس لوٹائی گئی تھیں۔

مفتی نور محسود لکھتے ہیں کہ 2003 سے لے کر 2016 تک تحریک طالبان خصوصاً محسود شدت پسندوں نے کسی بھی ملک چاہے وہ مسلم ہو یا غیرمسلم، ان سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں لی ہے۔ تاہم وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بعض گروپوں نے 2015 کے اواخر سے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jan 2018, 10:10 AM