پاکستانی صحافت پر خطرات کے بادل، فوج کی تنقید کے بعد ’جیو نیوز‘ اچانک بند

پاکستان کے مشہور ’جیو نیوز‘ چینل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ جیو نیوز نے پاکستان کی فوجی قیادت کے خلاف خبریں چلائی تھیں جس کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

پاکستان میں ایک بار پھر اظہارِ رائے کی آزادی پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ وہاں کے مشہور نیوز چینل ’جیو نیوز‘ کو بلا ک کردیا گیا ہے۔ خبریں ہیں کہ یہ پاکستان میں فوج اور حکومت کے ساتھ ہی سول انسٹی ٹیوشنز کے درمیان جاری رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔

اس چینل پر پابندی کس کے حکم پر عائد کی گئی، اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں مل سکی ہے لیکن حکومت نے کہا ہے کہ اسے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا وزارت برائے اطلاعات و نشریات نے آف ائیر نہیں کیا ہے۔ لیکن جیو کے ایگزیکٹیو چیف میر ابراہیم رحمن کا کہنا ہے کہ چینل کو ملک کے 80 فیصد حصہ میں آف ایئر کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے اس کے لیے کسی پر الزام عائد نہیں کیا ہے۔

چینل کو بلاک کیے جانے پر جیو ٹی وی کی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کا قانون اور آئین پاکستان کے شہریوں کو جانکاری حاصل کرنے کا بنیادی حق دیتا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ مہینوں سے مرحلہ وار اور منظم طریقے سے جیو نیوز کو بلیک آؤٹ کرنے کی شروعات کی گئی۔ سب سے پہلے اس چینل کو فوج کی چھاؤنی والے علاقوں میں بند کیا گیا تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیوز سے لے کر تفریح اور اسپورٹس تک، جیو کے سبھی چینلوں کو پورے پاکستان میں بلاک کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کے صحافی حامد میر نے اس چینل کے بلاک کیے جانے سے متعلق کہا ہے کہ جیو میں کام کرنے والے زیادہ تر صحافی بے خوف ہیں اور اس طرح کے اقدام سے ڈرنے والے نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر نیوز چینل پر پابندی لگی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں قانون کا راج ختم ہو گیا ہے۔

ایک وقت تھا جب اس چینل کو پاکستان اور اس کی فوج کا سب سے قریبی تصور کیا جاتا تھا، لیکن کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں جیو چینل فوج کے خلاف خبریں دکھا رہا تھا اور تنقیدی رویہ اختیار کیے ہوئے تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Apr 2018, 6:10 PM