پاکستانی حکومت شفافیت کے اپنے ہی امتحان میں فیل

پاکستانی حکومت اپنے ہی منظور کردہ اور 2017 میں نافذ ہونے والے اطلاعات تک رسائی کے وفاقی قانون پر عمل درآمد میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔

پاکستانی حکومت شفافیت کے اپنے ہی امتحان میں فیل
پاکستانی حکومت شفافیت کے اپنے ہی امتحان میں فیل
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستان میں وفاقی سطح پر اطلاعات تک رسائی کا جو ملکی قانون گزشتہ برس نافذالعمل ہو گیا تھا، ایک تازہ تحقیق کے مطابق پاکستانی حکومت اس پر عمل درآمد میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ ایک سال قبل نافذ ہونے والے اس قانون کے سیکشن پانچ کے تحت تمام وزارتوں سمیت جملہ وفاقی سرکاری اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ ازخود انکشاف (Voluntary Disclosure) کے تحت انتالیس مختلف اقسام کی اطلاعت اپنی اپنی ویب سائٹس پر مہیا کریں۔

ترقی اور اچھے طرز حکمرانی کے لیے کسی بھی معاشرے میں احتساب مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کو یقینی بنانے کے لیے شفافیت ایک مسلسل اور ناگزیر پیمانہ ہے۔ اسی عمل کی حوصلہ افزائی کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 28 ستمبر کو اطلاعات تک رسائی کا بین الاقوامی دن بھی منایا جاتا ہے۔

لیکن انسانی ترقی اور جمہوریت کی ترویج پر کام کرنے والی تنظیم انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ یا IRADA کی اٹھائیس ستمبر کی مناسبت سے تیار کردہ ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل انتالیس وفاقی وزارتوں میں سے سترہ وزارتوں کی تو اپنی ویب سائٹس ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جن انتیس وفاقی وزارتوں کی اپنی ویب سائٹس بن چکی ہیں، ان میں سے بھی اکثریت نے کم از کم انتالیس اقسام کی وہ معلومات صارفین کو آن لائن مہیا نہیں کیں، جن کا معلومات تک رسائی کا وفاقی قانون تقاضا کرتا ہے۔

اس ریسرچ رپورٹ سے متعلق ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ’ارادہ‘ کے ڈائریکٹر محمد آفتاب عالم نے بتایا، ’’آئین میں درج تمام بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے اطلاعات تک رسائی کے قانون کا مقصد عوام کو طاقت ور بنانا تھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا وہ پہلا ملک تھا، جس نے سن دو ہزار دو میں ہی اس بارے میں اولین قانون سازی کی تھی۔ لیکن اس پہلے قانون میں کئی جھول اور ابہام تھے۔ پھر عام شہریوں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی طویل جدوجہد کے بعد 2017 میں ایسا دوسرا قانون بنا، جو زیادہ ترقی پسندانہ تھا۔ لیکن کئی دیگر ملکی قوانین کی طرح حکومت اس قانون پر عمل درآمد میں بھی ناکام رہی ہے۔‘‘

آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لازمی نوعیت کی انتالیس اقسام کی جن اطلاعات کی فراہمی کی تمام وفاقی وزارتیں پابند ہیں، ان میں سے سب سے اچھی کارکردگی وزارت خزانہ کی ہے۔ لیکن یہ وزارت بھی انتالیس کے بجائے صرف سترہ اقسام کی لازمی اطلاعات مہیا کر سکی۔ یعنی اپنے قانونی ہدف سے 44 فیصد سے بھی کم۔ دوسرے نمبر پر رہنے والی وفاقی وزارتوں میں انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی، زراعت اور تجارت کے محکمے شامل تھے، جو صرف چودہ اقسام کی اطلاعات فراہم کر پائے، یعنی لازمی میں سے چھتیس فیصد سے بھی کم اطلاعات۔ اس عمل میں تیسرے نمبر پر پاکستان کی چار وفاقی وزارتیں رہیں۔ یہ اطلاعات، بین الصوبائی رابطہ کاری، صنعتوں اور مذہبی امور کی وزارتیں تھیں۔ ان کی طرف سے ان کی ویب سائٹس پر انتالیس میں سے صرف تیرہ اقسام کی اطلاعات مہیا کی گئیں، جو بمشکل تینتیس فیصد بنتی تھیں۔‘‘

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی ریسرچ کے مطابق اطلاعات تک رسائی کے پاکستانی قانون پر عمل درآمد کے لحاظ سے جن تین وفاقی وزارتوں نے سب سے بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہ پارلیمانی امور، امور کشمیر و گلگت بلتستان اور سمندری امور کی وزارتیں تھیں۔ ان وزارتوں نے عام شہریوں کو انتالیس میں سے محض سات اقسام کی اطلاعات دیں اور یہ شرح اٹھارہ فیصد بھی نہیں بنتی۔

اس درجہ بندی میں دوسری خراب ترین کارکردگی تین وزارتوں کی تھی، جو دفاع، خارجہ اور سرحدی امور کی وزارتیں تھیں۔ ان پاکستانی وفاقی محکموں کی طرف سے انتالیس میں سے صرف آٹھ اقسام کی انفارمیشن مہیا کی گئی، جو قریب بیس فیصد بنتی تھی۔

پاکستان میں اطلاعات تک رسائی سے متعلقہ امور کے ایک معروف تجزیہ کار اقبال خٹک بھی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’یہ بات اس لیے تشویشناک ہے کہ بنیادی اقسام کی اطلاعات کی فراہمی کے عمل میں وفاقی حکومت خود اپنے ہی بنائے ہوئے قانون پر عمل نہیں کر رہی اور وہی ذمے داریاں پوری نہیں کر رہی، جن کا اس نے خود کو پابند بنا رکھا ہے۔‘‘

اقبال خٹک کے مطابق، ’’اس ناکامی کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس قانون کے سیکشن اٹھارہ کے مطابق وزیر اعظم پر لازم ہے کہ وہ اس قانون کے نفاذ کے چھ ماہ کے اندر اندر انفارمیشن کمیشن قائم کرے۔ اس میں پہلے مسلم لیگ نون کی حکومت ناکام رہی اور تحریک انصاف کی حکومت بھی اب تک ناکام ہی نظر آتی ہے۔ دوسری وجہ اس قانون کے سیکشن نو کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق تمام وفاقی وزارتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ہاں ایک ایک اطلاعاتی افسر مقرر کریں۔ لیکن اس قانون کے نفاذ کے ایک سال بعد تک بھی کسی بھی وفاقی وزارت نے ایسا نہیں کیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت اب تک رولز آف بزنس ہی طے نہیں ہوئے۔ تو اگر یہ رولز ہی طے نہیں، تو اس قانون پر عمل درآمد کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے اور خلاف ورزی پر سزا کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟‘‘

دوسری طرف حکومتی سوچ کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی معاون برائے میڈیا افتخار درانی کا کہنا ہے، ’’حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے اور اطلاعات تک رسائی کے وفاقی قانون پر جلد عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔‘‘

اس بارے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن فائزہ حسن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ’’اس وفاقی قانون میں سیکشن پانچ یعنی ازخود انکشاف دراصل اس عمل کا نام ہے جس میں شہریوں کی طرف سے کسی درخواست کے بغیر ہی حکومت اور اس کے ادارے بنیادی ضروری اطلاعات اور ریکارڈ شہریوں تک ازخود ہی پہنچا دیں۔ قانون کے اس حصے پر عمل درآمد حکومت کے لیے اپنے وعدے کو پورا کرنے کا نام بھی ہے اور خود اپنا امتحان لینے کا بھی۔ اس امتحان میں کامیابی سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ آیا حکومت شفافیت، احتساب اور اچھے طرز حکمرانی پر عملی یقین بھی رکھتی ہے۔‘‘

فائزہ حسن نے کہا، ’’جہاں تک اس ریسرچ کے نتائج کا تعلق ہے، تو ان سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک تہائی وفاقی وزارتوں نے تو اس قانون کو سرے سے ہی نظر انداز کر رکھا ہے جبکہ باقی دو تہائی وفاقی وزارتوں نے اس کام کی تکمیل کو اپنی بڑی ترجیح بنانا ضروری ہی نہیں سمجھا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔