اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس برطرف، وکلا برادری تقسیم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برخواستگی نے ملک کی وکلا برادری کو تقسیم کردیا ہے، بعض نے اس فیصلے کو صیح قرار دیا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر کیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

شوکت عزیز صدیقی کا شمار وکلا کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ججوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کی مضبوط اسٹیبلشمنٹ پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ شوکت صدیقی نے گزشتہ برس اسلام آباد میں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے فوج اور آئی ایس آئی کے کردار پر بھی سخت تنقید کی تھی۔ ان کے خلاف کچھ برسوں پہلے اپنے سرکاری گھر کی تزئین وآرائش پر سرکاری خزانے سے متعین کردہ رقم سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان کے خلاف دوسرا ریفرنس اس وقت دائر کیا گیا، جب انہوں نے اس سال 21 جولائی کو ایک طاقتور ادارے پر الزام عائد کیا کہ وہ عدلیہ میں اپنی مرضی کی بینچیں بنواتا ہے۔

صدیقی کے خلاف پانچ رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے متفقہ فیصلے دیا، جس کے مطابق انہیں فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

پاکستان میں کئی ناقدین اس بر خواستگی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک ایسی کوشش قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت وہ فوج کے ناقدین کو ختم کر رہی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین لطیف آفریدی کے خیال میں اس فیصلے سے ججوں میں خوف پیدا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا، ’’کون سی ایسی بات تھی جو شوکت عزیز صدیقی نے غلط کہی تھی۔ آئی ایس آئی ہر معاملے میں دخل اندازی کرتی ہے۔ اس ملک کے سارے ادارے عملی طور پر آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے ماتحت ہیں۔ صدیقی نے بالکل سچی بات کہی تھی اور وہ اب تفصیل کے ساتھ یہ سارے حقائق منظرِ عام پر لائے گا۔ اس کو ہٹا کر ججوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بلکہ انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔‘‘

لیکن کیا صدیقی کی بر خواستگی کے خلاف وکلا کی طرف سے کوئی ردعمل آئے گا؟ اس سوال کے جواب میں لطیف آفریدی نے کہا، ’’میں پنجاب کی وکلا برادری کا نہیں کہہ سکتا کیونکہ ججز اور جنرلز بھی پنجاب سے ہیں۔ لیکن بقیہ تین صوبوں نے پہلے بھی آواز اٹھائی ہے اور اب بھی اٹھائیں گے۔‘‘

کئی وکلا سپریم جوڈیشل کونسل کی پوری کارروائی پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے خیال میں اس فیصلے سے کونسل کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس فیصلے کے بعد لوگ سپریم جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائیں گے۔ شوکت صدیقی کے خلاف ایک ریفرنس کی کھلی عدالت میں سماعت کی بات کی گئی اور اس کی دو سماعتیں کھلی عدالت میں بھی ہوئیں، لیکن جب صدیقی نے یہ کہا کہ انہیں دوسرے تمام ججوں کے بھی اخراجات کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی جائیں، جو انہوں نے اپنے گھر کی تزئین و آرائش پر کیے ہیں تو اس سوال کے بعد ان کے اس ریفرنس کو ملتوی کر دیا گیا اور یہ دوسرا ریفرنس شروع ہو گیا جس میں انہوں نے آئی ایس آئی پر تنقید کی تھی۔ ہم سب نے اس ریفرنس کی بھی کھلی سماعت کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس کی بند کمرے میں سماعت کر کے صدیقی کو فارغ کر دیا گیا۔ تو یہ پیغام ہے ان تمام لوگوں کے لیے جو طاقتور اداروں پر تنقید کرتے ہیں کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو راتوں رات آپ کو گھر بھیج دیا جائے گا۔‘‘

تاہم سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین کے خیال میں فیصلہ قانون کے مطابق ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''میرے خیال میں شوکت صدیقی نے جو الزامات لگائے تھے، ان کا دفاع کرنا بہت مشکل تھا۔ ان کو مناسب وقت دیا گیا لیکن وہ ان الزامات کو ثابت نہیں کر سکے۔ اگر مقدمات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اپنی مرضی سے مختلف بینچوں کو بھیج رہا تھا تو صدیقی صاحب کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھنا چاہیے تھا۔ اس طرح عوام میں جا کر الیکشن سے کچھ دن پہلے ایسے الزامات لگانا، جن کا آپ دفاع نہ کر سکیں بالکل نامناسب طریقہ ہے۔‘‘

کئی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سیلف سینسر شپ کا رجحان بڑھا ہے اور عدلیہ اور آرمی پر تنقید مشکل سے مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔ تجزیہ نگار مطیع اللہ جان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ 'مقدس گائے‘ بن چکے ہیں۔ مطیع اللہ جان کے مطابق، ''فیصل رضا عابدی کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگا دی گئیں۔ وہ عدلیہ کے ناقد تھے۔ اب شوکت عزیز صدیقی کے خلاف فیصلہ یہ پیغام دیتا ہے کہ جو بھی تنقید کرے گا، اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Oct 2018, 12:08 PM