آئی ایس آئی جنرل کو جان سے مارنے کی سازش میں پھنسا کر اپنی لڑائی کو ’جی ایچ کیو‘ تک لے گئے عمران خان

زاہد حسین نے کہا کہ عمران خان پر بندوق سے حملے نے ملک کو انارکی کی طرف دھکیل دیا ہے، ہو سکتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہو، لیکن گولی مارنے کا مقصد راز میں ڈوبا ہوا ہے۔

عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
عمران خان، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ایک سینئر خفیہ افسر کو ان کے قتل کی مبینہ سازش میں سیدھے طور پرپھنسا کر پاکستان کے سابق وزیر اعظم اس لڑائی کو جی ایچ کیو تک لے گئے ہیں۔ سیاسی تبصرہ نگار زاہد حسین نے یہ بات کہی ہے۔ حسین نے ’ڈان‘ میں شائع ایک مضمون میں لکھا ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم اور داخلی وزیر کے ساتھ ساتھ ’انھیں مارنے کی سازش‘ کی شکل میں ایک مشتبہ کے طور پر نامزد کرنے پر زور دینے سے سیکورٹی ادارہ کے ساتھ ان کا ٹکراؤ تیز ہو گیا ہے۔

حیرت انگیز طور سے اس الزام کی آئی ایس پی آر کی طرف سے تلخ تردید کی گئی۔ فوج نے ایک بیان میں الزام کو بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کارج کر دیا اور متنبہ کیا کہ فوج کے سینئر افسر اور ادارہ کے خلاف الزام بالکل ناقابل قبول اور نامناسب ہیں۔


فوج نے حکومت سے سیکورٹی ادارہ کو بدنام کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی گزارش کی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’وہ واضح طور سے سابق وزیر اعظم اور ان کے سابق محافظوں کے درمیان بڑھتی دشمنی کو دکھاتے ہیں۔‘‘ فوجی قیادت کے خلاف ان کی جارحیت جنرلوں کے ساتھ ’بیک چینل گفتگو‘ میں کوئی کامیابی نہیں ظاہر کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عمران خان کے ذریعہ پیش کردہ مطالبات کو ادارہ کے لیے ناقابل قبول مانا جاتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی بڑھتی عوامی حمایت نے عمران خان کے غرور کو مزید بڑھا دیا ہے۔

پاکستان کے صحافی حامد میر نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یہ اب کوئی راز نہیں ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی فائدہ کے لیے فوج کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جب فوج نے اپنی آئینی حدود کے نام پر استعمال کرنے سے انکار کر دیا تو عمران خان مشتعل ہو گئے۔


پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم نے جنرل باجوا کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ ایک بار اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ذریعہ سے سی او اے ایس کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ حامد میر نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے جنرل باجوا اور کچھ دیگر افسران کی سیدھے طور پر تنقید کرنی شروع کر دی تھی۔

زاہد حسین نے کہا کہ عمران خان پر بندوق سے حملے نے ملک کو انارکی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہو، لیکن گولی مارنے کا مقصد راز میں ڈوبا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے حملے کی سازش کے لیے سرکردہ سرکاری لیڈروں اور آئی ایس آئی کے ایک سینئر افسر کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔


فوجی اعلیٰ کمان میں ایک اہم تبدیلی کی قبل والی شام کو سیکورٹی ادارہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے یہ ایک منصوبہ بند قدم معلوم ہوتا ہے۔ صدر کو عمران خان کے خط نے انھیں اقتدار کے غلط استعمال اور ہمارے قوانین اور آئین کی خلاف ورزی کو منعکس کرنے کے لیے سیاسی تقسیم کو بڑھا دیا ہے۔

کارروائی کے لیے صدر جمہوریہ سے خان کی اپیل گزشتہ مہینے آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر چیف کے ذریعہ میڈیا بریفنگ سے شروع ہوئی تھی، جہاں سابق وزیر اعظم کو ان کی جھوٹی غیر ملکی سازش کی کہانی کے لیے مذمت کی گئی تھی۔ سابق وفاقی وزیر سنیٹر اعظم سواتی کی مبینہ حراست کے دوران ظلم کے بعد پی ٹی آئی اور سیکورٹی ادارہ کے درمیان رخنہ اندازی بھی پیدا ہو گئی۔


ایک متنازعہ ٹوئٹ کو لے کر درج معاملے میں ایف آئی اے کے ذریعہ اکتوبر میں گرفتار کیے گئے بزرگ سنیٹر اب ضمانت پر باہر ہیں۔ انھوں نے دو سینئر خفیہ افسران پر مبینہ جرائم میں شامل ہونے کا الزام لگایا ہے۔ عمر فاروق نے فرائیڈے ٹائمز میں لکھا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایسے لوگ ہیں جو مانتے ہیں کہ جنرل باجوا کے خلاف نواز شریف کی جارحانہ مہم کا مقصد پاکستانی پنجابی متوسط طبقہ کے درمیان بدامنی پیدا کرنا تھا، جس میں سے پاکستانی فوج کے بیشتر افسر شامل ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’اس بدامنی نے سرکردہ افسران پر دباؤ بنایا ہوگا، جن کے جونیئر اور سینئر رینک وسط پنجاب میں متوسطہ طبقہ سے ہیں۔ نواز شریف بری طرح ناکام رہے اور جنرل باجوا ہُک سے اتر گئے۔ لیکن شریف نے راستہ دکھایا تھا۔‘‘

جب عمران خان کو بے دخل کیا گیا تو انھوں نے وسط پنجاب اور اس کے متوسط طبقات کو غیر مستحکم کرنے کے لیے یکساں راستے پر چل دیا۔ وہی متوسط طبقہ جن سے پاکستانی فوج کے بیشتر افسر کور تیار کیے جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔