پاکستان میں وکلاء کی آواز دبانے کے لیے عدالت کو بنایا جا رہا اسلحہ، حقوق انسانی تنظیموں سے مداخلت کا مطالبہ

حقوق انسانی گروپ اور بی وائی سی نے کہا کہ زینب اور ہادی علی کے خلاف ایسی کارروائی پاکستانی افسران کے ذریعہ بے گناہ شہریوں کے خلاف قانون کا غلط استعمال کرنا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>وکلا کی علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ایک انتہائی اہم حقوق انسانی گروپ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ نے پاکستانی وکلا کے خلاف ٹرائل کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وکلاء کی آواز دبانے کے لیے عدالت کو اسلحہ بنایا جا رہا ہے۔ انھیں ایسے جرم کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ یہ کارروائی پاکستانی افسران کے ذریعہ بے قصور شہریوں کے خلاف قانون کا اسلحہ کے طور پر استعمال کرنے کی ایک مثال ہے۔

حقوق انسانی گروپ اور بی وائی سی نے کہا کہ زینب اور ہادی علی کے خلاف ایسی کارروائی پاکستانی افسران کے ذریعہ بے گناہ شہریوں کے خلاف قانون کا غلط استعمال کرنا ہے۔ حقوق انسانی گروپ نے الزام عائد کیا کہ قانونی طریقوں کا استعمال انصاف کو بنائے رکھنے کے لیے نہیں، بلکہ سچ بولنے کی ہمت کرنے والوں کو خاموش کرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ حقوق انسانی کارکن اور وکیل ایمان مزاری اور ان کے شوہر وکیل ہادی علی چٹھا پر اکتوبر میں اسلام آباد کی ایک عدالت نے مبینہ طور پر متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ سے منسلک ایک معاملے میں الزام عائد کیا تھا۔


بی وائی سی نے کہا کہ ’’وکیل ایمان مزاری اور وکیل ہادی علی طویل مدت سے حقوق انسانی کی سیکورٹی کے لیے وقف ہیں۔ ان کی کوششوں میں اہانت رسول قوانین کے متاثرین کے لیے انصاف کی وکالت کرنا، زبردستی غائب کیے گئے لوگوں کی آواز اٹھانا اور ملٹری کورٹ میں غیر آئینی طریقوں کے ساتھ قانون کے راج کو کمزور کرنے کی بڑی کوششوں کو چیلنج دینا شامل ہے۔ جو لوگ موجودہ سسٹم کی تنقید کرتے ہیں، یا اس پر سوال اٹھاتے ہیں، انھیں قانونی ظلم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

بی وائی سی نے آگے کہا کہ اس کے اپنے لیڈران کو گزشتہ 9 مہینوں سے بغیر کسی وجہ کے حراست میں رکھا گیا ہ، جبکہ پشتون تحفظ مہم کے لیڈر علی وزیر کو 2 سال سے ایک ایسے جرم کے لیے جیل میں رکھا گیا ہے، جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔ بی وائی سی نے زور دے کر کہا کہ ’’پاکستان میں چل رہی حقوق انسانی کی خلاف ورزی روکنے کے لیے حقوق انسانی اداروں کو فوراً مداخلت کرنی چاہیے۔‘‘


اس ہفتہ کے آغاز میں ’ویمن اِن لا انیشیٹیو‘ (ڈبلیو آئی ایل) پاکستان نے بھی ملک کے ’پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016‘ (پی ای سی اے) کے تحت ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھا کے خلاف چلائے جا رہے ٹرائل کو غیر قانونی اور غلط طریقہ بتایا۔ ڈبلیو آئی ایل نے کہا کہ ’’وکیل ایمان اور ہادی کے ساتھ غیر قانونی سلوک کا نہ صرف ان پر بلکہ پاکستان میں لاء کمیونٹی کی آزادی اور سیکورٹی پر بھی سنگین اثر پڑے گا۔ ایسا سلوک ہمارے آئینی نظام کی بنیاد پر حملہ کرتا ہے اور ایک خطرناک پیغام دیتا ہے کہ جو لوگ حقوق کی حفاظت کرتے ہیں، آئینی اصولوں کو بنائے رکھتے ہیں یا طاقت کے زیادہ استعمال کو چیلنج دیتے ہیں، انھیں خود نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور ان پر غیر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔