افریقہ کے بعد پاکستان میں داخل ہوا ’منکی وائرس‘، تمام ہوائی اڈوں پررہ نماہدایات جاری

پاکستان کی وفاقی وزارت برائے قومی صحت سائنس نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایم پاکس کا ایک کیس منظرعام پرآنے کے بعد ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر رہ نما ہدایات جاری کردی ہیں

منکی پاکس، تصویر یو این آئی
منکی پاکس، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

پاکستان کی وفاقی وزارت برائے قومی صحت سائنس نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایم پاکس کا ایک کیس منظرعام پرآنے کے بعد ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر رہ نما ہدایات جاری کردی ہیں۔

وزارت برائے قومی صحت سائنس کے ترجمان ساجد شاہ نے تصدیق کی کہ یہ ملک میں ایم پاکس کا پہلا کیس ہے۔اس کوپہلے آبلۂ بندر(منکی پوکس) کہا جاتا تھا۔اس بیماری میں عام طور پر مریضوں میں دانے، بخار، گلے میں خراش، سر درد، پٹھوں میں درد، کمر درد، کم توانائی اور سوجن جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) کے مطابق:’’ایم پاکس ایسی علامات کا سبب بنتا ہے جس سے بیماری عام طور پر ایک ہفتے کے اندر شروع ہوسکتی ہے لیکن ایکسپوزرایک سے21 دن بعد بھی شروع ہوسکتی ہے۔اس کی علامات عام طور پر 2-4 ہفتوں تک رہتی ہیں لیکن کمزور مدافعتی نظام والے کسی شخص میں زیادہ دیر تک رہ سکتی ہیں‘‘۔

گذشتہ سال سے دنیا بھرمیں آبلۂ بندر کے کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور یکم جنوری 2022 سے 24 اپریل 2023تک ڈبلیو ایچ او کو 87 ہزار 113 مصدقہ کیس رپورٹ ہوئے۔


ترجمان نے بتایا کہ پاکستان میں پہلے کیس کی تصدیق کے بعد قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے دو ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور دیگر مقامات پر کانٹیکٹ ٹریسنگ کررہی ہیں جہاں مریض ممکنہ طور پر بیماری کی منتقلی کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ملک بھر کے ہوائی اڈوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے مسافروں کے بارے میں معلومات فراہم کریں جن میں آبلۂ بندر کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔انھوں نے یقین دلایا کہ’’پاکستانیوں کی حفاظت اور صحت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے گئے ہیں‘‘۔

دریں اثناء نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر(این سی او سی) نے ملک بھر میں ایم پاکس کے کیسز سے نمٹنے کے لیے ایک کنٹرول روم قائم کیا ہے۔یہ روزانہ کی بنیاد پر ایم پاکس کے کیسوں کے بارے میں معلومات کو اپ ڈیٹ کرے گا تاکہ عوام میں غلط معلومات اور خوف وہراس سے بچا جا سکے۔


ایم پاکس کیا ہے؟

ڈبلیو ایچ او نے ایم پاکس کو زونوسس کے طور پر بیان کیا ہے۔ایک ایسی بیماری جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے ، جس کے کیس اکثر موسمیاتی برساتی جنگلات کے قریب پائے جاتے ہیں جہاں جانورموجود ہوتے ہیں اور وہ یہ وائرس لے جاتے ہیں"۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ یہ بیماری انسانوں سے انسانوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔یہ جسمانی سیال، جلد پر زخموں یا اندرونی سطحوں جیسے منھ یا گلے، سانس کے قطروں اور آلودہ اشیاء کے ساتھ رابطے کے ذریعے منتقل ہوسکتا ہے۔

گذشتہ سال ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری کردہ ہیلتھ ایڈوائزری کے مطابق جو لوگ کسی ایسے شخص کے ساتھ قریبی رابطے میں رہتے ہیں جو متعدی ہے ، ان میں انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں گھرکے ارکان، جنسی شراکت داراور ہیلتھ ورکرز شامل ہیں۔

یہ بیماری سب سے پہلے 1958 میں ڈنمارک میں تحقیق کے لیے رکھے گئے بندروں میں شناخت کی گئی تھی اور اسی وجہ سے اسے منکی پاکس (آبلۂ بندر) کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن گذشتہ سال ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا تھا کہ اس بیماری کا نام بدل کر ایم پاکس رکھ دیا جائے گا تاکہ اس بیماری کے اس وقت کے نام سے پیدا ہونے والی بدنامی سے بچا جا سکے۔


یہ بیماری سب سے پہلے 1970 میں جمہوریہ کانگو میں انسانوں میں دریافت ہوئی تھی ، اس کے بعد سے انسانوں میں اس کا پھیلاؤ بنیادی طور پر کچھ مغربی اور وسطی افریقی ممالک تک محدود تھالیکن مئی 2022 میں اس بیماری کے کیسز، جو بخار، پٹھوں میں درد اور جلد کے بڑے پھوڑے جیسے زخموں کا سبب بنتے ہیں، دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے لگے۔

ڈبلیو ایچ او نے 24 جولائی 2022 کو کووڈ 19 کے ساتھ ساتھ اسے بین الاقوامی سطح پر صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال قرار دیا تھا۔

مائیکرو بائیولوجسٹ ڈاکٹر جاوید عثمان کا کہنا تھا کہ ’’اس کا کوئی مخصوص اینٹی وائرل علاج نہیں ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی منظور شدہ ویکسین موجود ہے’’۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ بیماری عام طور پر مہلک نہیں ہوتی ہے، لیکن شاذ و نادر صورتوں میں ایسا ہوسکتا ہے جب کسی شخص کو نمونیا یا دماغ کا انفیکشن جیسے دماغی بخار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر عثمان کا کہنا تھا کہ 'می پوکس کے مریض کو آئسولیشن میں رکھنا پڑتا ہے اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے کو انفیکشن کے امکانات سے بچنے کے لیے دستانے اور ماسک پہننا چاہیے' لیکن انھوں نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ یہ بیماری عام طور پر مہلک نہیں ہوتی اور لوگوں کو اس کی نشاندہی کے بعد گھبرانا نہیں چاہیے۔

بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔