پاکستان کی اڈیالہ جیل اور اس کے خصوصی مہمان

سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو اڈیالہ جیل میں ہی رکھنے کے حتمی فیصلے کے بعد پاکستان کی اس جیل کے ’خصوصی مہمانوں‘ کی فہرست میں دو نئے ناموں کا اضافہ ہو گیا ہے۔

اڈیالہ جیل
اڈیالہ جیل
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستان کی سیاسی تاریخ بیان کرتے ہوئے جہاں چند پارکوں (لیاقت باغ، راولپنڈی)، چوکوں (ریگل چوک، لاہور)، سڑکوں (شاہراہ فیصل، کراچی) اور ہالوں (بختیار لیبر ہال، لاہور، نشتر ہال، پشاور) کے ذکر سے مفر نہیں، وہیں اس تاریخ کے چند انتہائی تاریک اور روشن ابواب چند جیلوں میں رقم ہوئے۔ ان قید گاہوں میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی کے حوالے سے چند ماہ قبل ہی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اڈیالہ جیل کی ’صفائی‘ شروع کروا دی گئی ہے۔ اس وقت بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس نوعیت کی افواہیں پھیلانے کا مقصد نواز شریف کو ڈرانا ہے۔ نواز شریف کو بزدلی اور سہل طلبی کا طعنہ 1999 سے دیا جا رہا ہے جب انہو‍ں نے ایک آمر کے ساتھ ’ڈیل‘ کر کے سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو ان کے سیاسی کیرئیر پر ایک داغ بن گیا۔ عام خیال یہی تھا کہ خوش خوراکی کے رسیا اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے عادی نواز شریف جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا نہیں چاہیں گے اوران سے بچنے کے لیے ہر سمجھوتہ کر گزریں گے۔

نوازشریف اور مریم نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں رکھنے، انہیں بی کلاس دینے اور عدالتی کارروائی جیل ہی میں کرنے کے فیصلوں نے ایک مرتبہ پھر اڈیالہ جیل کو تمام تر توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ آئندہ دنوں میں نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی اسی چار دیواری پر اپنے کیمرے اور توجہ مرکوز کرے گا۔

تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں کل 18 جیلیں تھیں جن میں راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل ایک اہم جیل تھی جہاں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ اس سے قبل اس کی ایک کوٹھڑی میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 1988 میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کو جنرل ضیا الحق کے حکم پر منہدم کرکے اس قطعہ اراضی پر جناح پارک بنا دیا گیا۔

بعض سیاسی مورخوں خصوصاً پیپلز پارٹی سے وابستہ دانشوروں کا خیال ہے کہ بھٹو کی پھانسی، کال کوٹھڑی اور ان کے آخری لمحات سے متعلق ہرعلامت کو مٹانے کا مقصد یہ تھا کہ پیپلزپارٹی مستقبل میں اسے سیاسی تحریکوں کے نکتہ آغاز کے طور پر استعمال نہ کر سکے۔ دوسری طرف فوجی آمر ضیا الحق چاہتا تھا کہ مستقبل میں اس جیل کو میوزیم میں تبدیل کرکے اسے جمہوریت، حقوق اور آزادیوں کے لیے کی جانے والی پاکستانی عوام کی جدوجہد کا مرکز اور استعارہ نہ بنا دیا جائے۔ جناح پارک میں ایک چھوٹی سی یادگار اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں وہ پھانسی گھاٹ تھا جس پر بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ لیکن یہ یادگار میکڈونلڈ، سینما اور بچوں کے جھولوں وغیرہ میں کہیں گم ہو چکی ہے اورعموماً نظر نہیں پڑتی۔

1988 میں ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے انہدام سے دو برس قبل، 1986 میں راولپنڈی کے اڈیالہ روڈ پر، ڈسٹرکٹ کورٹس سے 13 کلومیٹر دورایک نئی جیل تعمیر کی گئی جسے سنٹرل جیل راولپنڈی کا نام دیا گیا۔ یہ اڈیالہ جیل سے ہی مشہور ہے۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مشرف آمریت میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاکے تحت گیارہ فروری 2001 میں گرفتار کیا گیا اور پانچ برس بعد وہ سات اکتوبر 2006 میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ تھا کہ انہوں نے بطور اسپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب ’چاہ یوسف سے صدا‘ جیل ہی میں لکھی تھی۔

اڈیالہ جیل کو اس وقت عالمی شہرت ملی جب برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے پاکستان کے دورہ کے دوران اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف سے اپنے ایک شہری مرزا طاہر حسین کی پھانسی کو موخر کرنے کی درخواست کی۔ یہ برطانوی شہری ایک ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام میں 1988 سے قید تھا۔ پاکستان کی اعلی عدالت نے اسے بےقصور قرار دے دیا تھا مگر پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے اسے مجرم قرار دیا اور پھانسی کی سزا سنائی۔

مرزا طاہر حسین کی پھانسی کی سزا تین مرتبہ موخر کی گئی۔ آخرکار برطانوی حکومت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پر پرویز مشرف نے بطور صدر ان کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی، لیکن چونکہ وہ 18 برسوں سے اڈیالہ جیل میں تھے اور اچھے چال چلن کے حامل تھے لہذا 2006 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔

اڈیالہ جیل کے ایک اور 'نامور' قیدی کالعدم لشکر طیبہ کے سربراہ ضیا الرحمن لکھوی تھے جنہیں 7 دسمبر 2008 کو ممبئی حملوں کے الزام میں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا۔ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں ضمانت پر انکی رہائی کے موقعہ پر10 اپریل 2015 کو بی بی سی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ’’پاکستانی حکومت اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا دعویٰ کرتی رہی ہے لیکن اڈیالہ جیل میں ضیا الرحمن لکھوی اور ان کے 6 ساتھیوں کو غیر معمولی سہولتیں حاصل تھیں۔ کئی کمروں پر مشتمل جیل کا ایک حصہ ان کی صوابدید پر تھا جہاں ان کے پاس ٹیلی ویژن، موبائل فون کے علاوہ، کسی روک ٹوک اور پیشگی اجازت کے بغیر، مہمانوں سے ملنے کی اجازت تھی۔‘‘

اڈیالہ جیل کے ایک اور معروف مہمان ممتاز قادری تھے جنہیں 4 جنوری 2011 کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ 10 جنوری کو انہیں 14 دن کے ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اور سیکورٹی خدشات کے سبب ان کا مقدمہ بھی جیل کے اندر ہی چلایا گیا۔ 29 فروری 2016 کو صبح ساڑھے چار بجے اسی اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔

معروف امریکی اداکار، اسٹنٹ مین اور پوکر کے کھلاڑی ایرک انتھونی اوڈے کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں، 15 فروری 2002 کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا اور وہ اپنی دانست میں چمڑے کی مصنوعات کی تجارت کر رہے تھے اورمنشیات کی موجودگی سے لاعلم تھے۔ اس واقعہ کو اس قدر عالمی شہرت ملی کہ نیشنل جیوگرافک نے اس پر ایک دستاویزی فلم بنائی۔

1999 میں اس وقت کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کی جانب سے مارشل لا لگائے جانے کے بعد میاں نواز شریف کو ایک فوجی عدالت نے اغوا، اقدام قتل، طیارہ اغوا، دہشت گردی اور کرپشن کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا کر اڈیالہ جیل میں قید کر دیا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور سعودی شاہ فہد کی مداخلت کے بعد عدالت نے انہیں سزائے موت دینے سے گریز کیا اور آخر کار فوجی حکومت سے ڈیل کے نتیجہ میں میاں محمد ںواز شریف سعودی عرب جلاوطن کر دیے گئے۔

13 جولائی 2018 کو ایک مرتبہ پھر، معلوم ذرائع سے زیادہ معیارزندگی رکھنے کے جرم میں، گرفتار کر کے اسی اڈیالہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ وہ ڈیل کرکے پاکستان سے باہر جانے کے لیے نہیں بلکہ بیرون ملک سے گرفتار ہونے کے لیے آئے ہیں۔ وہ اسے جمہوری اقدار اور منتخب اداروں کی بالادستی اور ’ووٹ کو عزت دینے‘ کی خاطر دی جانے والی ایک قربانی قرار دے رہے ہیں۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ میاں محمد نوازشریف اور ان کے داماد کیپٹن صفدر کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز بھی اڈیالہ جیل میں قید کی گئی ہیں۔ اڈیالہ جیل کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔